مقدس ہستیوں کی قبروں اور روضہ کے سامنے سر جھکانا اور سجدہ کرنا کیسا ہے ؟ - Edaara-e-darul itrat
Takhribe jannatul baqi ka seyaasi pas manzar Qabre hazrat Faatemah | aap ne kis ko apni namaaze janaaza me shirkat ki aejaazat nahi di ?

Sunday, August 18, 2024

مقدس ہستیوں کی قبروں اور روضہ کے سامنے سر جھکانا اور سجدہ کرنا کیسا ہے ؟

roman urdu me padhne ke liae click here


سوال از : محترم جناب کمیل عباس صاحب (مظفر نگر - یو پی)


السلام علیکم


سوال ہے
تابوت پر دعا مانگنا ذوالجناح نکال کے اس کو چومنا اس پر دعا مانگنا، روضہ پر جا کر سر جھکانا، علم پر دعا مانگنا کیسا ہے؟


جب کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ میرے سوا کسی سے نہ مانگو کچھ بھی۔


مرجع : آیت اللہ سیستانی صاحب


جواب :


باسمه تعالى
ياصاحب الزمان ادركنا
عليكم السلام و رحمة الله و بركاته


روضہ پر جاکر سر جھکانا کیسا ہے ؟


مقدس ہستیوں (عليهم السلام) کی تعظیم و تکریم کے لیئے ان کی قبروں اور حرم کے سامنے سر جھکانا و خم کرنا اگر رکوع کی طرح نہ ہو تو شرعا کوئی حرج نہیں ہے


سر جھکانے سے آپ کی مراد اگر سجدہ کرنے کے بارے میں معلوم کرنا ہے تو پھر اس کا جواب یہ ہے :


مختصر جواب :


اگر معصومین اور دوسری مقدس ہستیوں (عليهم السلام) کی قبروں اور حرم کے سامنے خدا تعالی کا شکر ادا کرنے کے لیئے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے


قدرے تفصیلی جواب :


سجدے کی کئی اقسام ہیں لیکن سوال کے پیش نظر تین قسمیں ہیں :


  1. سجدئہ عبادت :

  2. خدا کے علاوہ کسی کے سامنے عبادت و پرستش کی نیت سے سجدہ کرنا شرک ہے


    متعدد آیات اور روایات کے مطابق یہ سجدہ خدا سے مختص ہے، یہ سجدہ صرف خدا کے لیئے ہی ہو سکتا ہے لہذا اگر اس نیت سے کسی مقدس ہستی کی قبروں اور حرم کے سامنے سجدہ کرے تو یہ شرک ہے


  3. سجدئہ تعظیمی :

  4. خدا کی ذات کے علاوہ کسی اور کے سامنے بغرض تعظیم و تکریم سر بسجود ہونا شرک نہیں ہے لیکن حرام ہے


    اس بنا پر اگر کسی نے مقدس ہستی کی قبروں اور حرم کے سامنے بطور تعظیم سجدہ کیا تو وہ مشرک نہ ہوگا، ہاں گناہ گار ہے اور حرام فعل کیا ہے کیونکہ پہلے اور پچھلی کچھ امتوں میں سجدئہ تعظیمی جائز تھا جیسے کہ فرشتوں نے حضرت آدم کو تعظیما سجدہ کیا اسی طرح حضرت یوسف کے والدین اور بھائیوں نے انہیں سجدہ کیا لیکن شریعت محمدی میں یہ سجدہ منسوخ ہو چکا ہے، اس سے منع کیا گیا ہے


    واضح رہے کہ بعض سنی اور شیعہ کسی مقدس ہستی کی قبروں اور حرم کے سامنے بطور اکرام سجدہ کرتے ہیں تو پلید و خبیث وہابی اور تکفیری ان کو مشرک کہتے ہیں، یہ غلط ہے اس لیئے کہ غیر خدا کے سامنے ادبا و احتراما سجدہ کرنا شرک نہیں ہے


    اگر تعظیمی سجدہ شرک ہوتا تو حضرت یعقوب، حضرت یوسف کے بھائی، آپ کی ماں اور ملائکہ (معاذالله) سب مشرک ہوتے اور شرک میں حضرت یوسف بھی شریک ہوتے اس لیئے کہ اس سے منع نہیں کیا اور سب سے بڑا موحد ابلیس ملعون ہوتا کیونکہ صرف اس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا


  5. سجدئہ شکر :

  6. مقدس ہستیوں کی قبروں اور حرم کے سامنے سجدئہ شکر کی نیت سے سجدہ کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے
    بلا شک و شبہ زیارت کی توفیق ملنا خدا کی بڑی نعمت ہے لہذا اس توفیق کے مل جانے پر مقدس ہستیوں کی قبروں اور حرم کے سامنے سجدئہ شکر کرنا جائز ہے


    سورہ بقرہ آیت 34 میں ہے "جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، اس نے انکار کیا" اور سورہ یوسف آیت 100 میں ہے "سب (حضرت یعقوب، آپ کے بیٹے اور حضرت یوسف کی ماں) ان (حضرت یوسف) کے سامنے سجدے میں گر گئے"


    یہاں کسی کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ جب ملائکہ نے حضرت آدم کو سجدہ کیا اور حضرت یوسف کے پدر، ماں اور بھائیوں نے حضرت یوسف کو سجدہ کیا تو ہم بھی مقدس ہستیوں کی قبروں اور روضہ کے سامنے سجدہ کر سکتے ہیں، اس میں کیا حرج ہے اگر خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے تو پھر فرشتوں نے حضرت آدم کو اور حضرت یعقوب وغیرہ نے حضرت یوسف کو سجدہ کیوں کیا ؟


    اس کا جواب یہ ہے :


    1. حضرت آدم اور حضرت یوسف کو سجدہ کرنا خدا کے اذن سے تھا، ان کے علاوہ کسی غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کے سلسلے میں اجازت وارد نہیں ہے لہذا اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا

    2. اِس سجدے کو اُس سجدے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہوگا جو کہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اِس سجدے کی اجازت نہیں ہے لیکن اُس سجدے کی اجازت تھی بلکہ حکم تھا


      ذیل کی مثال سے اس کی تصدیق و تائید ہوگی


      فرض کیجیئے اگر کوئی کسی کو اپنے گھر کے کسی مخصوص کمرے میں داخل ہونے کی اجازت دے تو کیا جس کو داخل ہونے کی اجازت دی ہے وہ مخصوص و پہلے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت پر قیاس کرتے ہوئے دوسرے کمرے میں داخل ہو سکتا ہے ؟


      واضح اور روشن ہے مخصوص کمرے میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے لہذا اس اجازت پر قیاس کرتے ہوئے دوسرے کمرے میں داخل ہونا جائز نہیں ہے
      اسی طرح حضرت آدم اور حضرت یوسف کو سجدہ کرنا بھی ہے، فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کیا یا حضرت یوسف کے پدر،ماں اور بھائیوں نے حضرت یوسف کو سجدہ کیا تھا تو وہ خدا کے اذن سے تھا اس پر قیاس کرتے ہوئے ہم غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہیں کرسکتے


    3. صحیح ہے کہ بظاہر حضرت آدم کو سجدہ کیا گیا لیکن فرشتوں نے اپنی مرضی سے سجدہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ خدا کے حکم سے کیا تھا اسی وجہ سے حقیقت میں وہ سجدہ خدا کے لیئے تھا، یہ عین عبودیت، بندگی اور توحید ہے

    4. ایک مثال سے میری بات آپ پر زیادہ واضح ہوگی
      اگر بادشاہ کسی فرد کو کسی دوسرے کا اکرام و تعظیم کرنے کا حکم دے تو در حقیقت اس فرد کا اکرام و تعظیم بادشاہ کا اکرام و تعظیم ہے اس لیئے کہ اس کے امر کی اطاعت کی ہے اسی طرح فرشتوں کا حضرت آدم کو سجدہ کرنا ہے، وہ سجدہ حضرت آدم کو نہیں تھا بلکہ اللہ کا تھا


      اسی بناپر جس کو سجدہ کرنے کا حکم خدا نے نہیں دیا ہے اس کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے


      واضح رہے کہ بتوں کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ خدا نے اس کی اجازت نہیں دی ہےاگر خدا اجازت دیتا تو بتوں کو سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہ ہوتا اس لیئے کہ یہ خدا کی اطاعت ہوتی اور حکمُ اللہ کا امتثال
      مختصر یہ کہ حضرت آدم اور حضرت یوسف کو سجدہ کرنا امر الہی کی تعمیل تھی اور انکار امر الہی سے روگردانی تھی


    5. بعض مفسرین کے بقول حضرت آدم اور حضرت یوسف کو سجدہ، کعبہ کے طور پر تھا آپ حضرات کو ان لوگوں کے لیئے قبلہ بنایا تھا جس طرح نماز وغیرہ کے لیئے کعبہ ہمارا قبلہ ہے بالکل اسی طرح ان لوگوں کے لیئے سجدے کا قبلہ حضرت آدم اور حضرت یوسف تھے
      سجدہ نہ حضرت آدم کے لیئے تھا اور نہ ہی حضرت یوسف کے لیئے، خدا کے لیئے سجدہ کرنے اور کعبہ کی طرف سجدہ کرنے میں جو فرق ہے وہ واضح و روشن ہے، ہم کعبہ کی طرف رخ کر کے سجدہ کرتے ہیں کعبہ کو نہیں کرتے اس لیئے کہ بلاشک و شبہ سجدہ صرف خدا کے لیئے ہے لہذا فرشتوں کا حضرت آدم کو سجدہ کرنے یا حضرت یوسف کو ان کے پدر، ماں اور بھائیوں کا سجدہ کرنے کی مثال بالکل اس طرح ہے جیسے ہم قبلہ رو ہوکے سجدہ کرتے ہیں
      البتہ اکثر مفسرین نے اس نظریہ کو رد کیا ہے، اس نطریہ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ حضرت ادم اور حضرت یوسف کو سجدہ کرنا قبلہ کے طور پر نہیں تھا بلکہ بطور تعظیم و تکریم تھا اپنی بات ثابت کرنے کے لیئے آیات اور روایات کو اپنی دلیل بنائی ہے، اختصار کے پیش نظر دلائل کو نظر انداز کرتے ہیں

    6. یہاں پر وہ دو حدیثیں بھی بیان کردوں جن کا ذکر یہاں مناسب ہے :


      1. ابوالحسن امام ہادی (دسویں امام) عليه السلام نے فرمایا :

      2. " أَمَّا سُجُودُ يَعْقُوبَ وَ وُلْدِهِ لِيُوسُفَ فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيُوسُفَ وَ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ يَعْقُوبَ وَ وُلْدِهِ طَاعَةً لِلَّهِ- وَ تَحِيَّةً لِيُوسُفَ كَمَا كَانَ السُّجُودُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ لِآدَمَ وَ لَمْ يَكُنْ لِآدَمَ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنْهُمْ طَاعَةً لِلَّهِ وَ تَحِيَّةً لِآدَمَ ... "


        ترجمہ و مفہوم :


        " حضرت یعقوب اور آپ کے فرزندوں کا حضرت یوسف کے لیئے سجدہ کرنا جائز تھا کیونکہ بتحقیق، سجدہ حضرت یوسف کے لیئے نہیں تھا بلکہ حضرت یعقوب اور آپ کے فرزندوں کے سجدے خدا کی اطاعت کے لیئے اور حضرت یوسف کے احترام و تحیت کے طور پر تھے جیسے حضرت آدم کو فرشتوں کا سجدہ حضرت آدم کے لیئے نہیں تھا بلکہ تحقیقا وہ ان کی طرف سے خدا کی اطاعت اور حضرت آدم کے اکرام و تحیت کے لیئے تھا ..."


        (تفسیر قمی - ج 1 - ص 356 - تالیف علی بن ابراہیم قمی - ناشر دارالکتاب قم)


      3. امام رضا نے اپنے آباؤ اجداد سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (صلوات الله عليهم) نے فرمایا :

      4. "... إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ فَأَوْدَعَنَا صُلْبَهُ وَ أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ بِالسُّجُودِ لَهُ تَعْظِيماً لَنَا وَ إِكْرَاماً وَ كَانَ سُجُودُهُمْ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عُبُودِيَّةً وَ لِآدَمَ إِكْرَاماً وَ طَاعَةً لِكَوْنِنَا فِي صُلْبِه ..."


        ترجمہ و مفہوم :


        "... بیشک اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم کو پیدا کیا اور ان کے صلب (نسل) میں ہمیں (اہل بیت عليهم السلام) کو بطور امانت رکھا اور ہماری تعظیم و تکریم کے لیئے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم کو سجدہ کریں، اور ان کے سجدے خدا عز و جل کی عبادت و پرستش اور حضرت آدم کے اکرام کے طور پر تھے اور چونکہ ہم ان کے صلب میں تھے ہماری اطاعت تھی ..."


        (علل الشرائع -ج -1 ص 6 - تالیف شیخ صدوق - ناشر المكتبة الحيدرية نجف)


        اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم کو سجدہ کرنے کی اصل علت و سبب آپ کے صلب میں اہل بیت (عليهم السلام) کے انوار کا ہونا تھا لہذا حضرت آدم کو سجدہ کرنا دراصل اہل بیت (عليهم السلام) کی تعظیم و تکریم تھی


خلاصہ یہ کہ :


حضرت آدم اور حضرت یوسف کو سجدہ کرنا بطور عبادت و پرستش نہیں تھا اس لیئے کہ کسی غیراللہ کے سامنے عبادت کی نیت سے سجدہ کرنا شرک ہے، وہ سجدے محض تعظیم اور عزت افزائی کے لیئے تھے اور شریعت محمدیہ میں سجدئہ تعظیمی منسوخ ہوچکا ہے لہذا مقدس ہستیوں کی قبروں، حرم کے سامنے اور آپ حضرات کی چوکھٹ پر تعظیمی سجدہ کرنا حرام ہے صرف سجدئہ شکر کر سکتے ہیں


نیچے دی گئی سرخی دبا کر ویڈیو دیکھنا مفید ہے انشاءالله




تبصرہ :


  1. آیت اللہ سیستانی کی طرف سے سوال کا مختصر جواب ملتا ہے لہذا میری طرف سے یہ جواب ہے.

  2. آپ کو باقی سوال کا جواب مل چکا ہے

  3. تابوت | علم | جھولا اور ذوالجناح سے حاجت مانگنا کیسا ہے ؟ | خدا کے سوا کسی دوسرے سے مدد مانگنا


والسلام

سید شمشاد علی کٹوکھری
خادم ادارئہ " دار العترت " عظیم آباد / پٹنہ - شعبئہ سوالات قم / ایران


9 / صفر / 1446ھ.ق

رومن اردو سے اردو رسم الخط میں تبدیل

subscribe us on youtube

No comments:

Comment

.
WhatsAppWhatsApp par sawaal karen