حضرت علی کی کنیت کیا ہے ؟ | وجہ | نام و لقب اور کنیت کی تعریف | دشمن نے شرم گاہ سے دفاع کیا - Edaara-e-darul itrat
Takhribe jannatul baqi ka seyaasi pas manzar Qabre hazrat Faatemah | aap ne kis ko apni namaaze janaaza me shirkat ki aejaazat nahi di ?

Sunday, June 9, 2024

حضرت علی کی کنیت کیا ہے ؟ | وجہ | نام و لقب اور کنیت کی تعریف | دشمن نے شرم گاہ سے دفاع کیا

roman urdu me padhne ke liae click here


سوال از : محترم جناب احتشام صاحب (چھپرہ / سارن)


مولا علی علیہ السلام کی کنیت کیا ہے ؟


جواب :


باسمه تعالى
ياصاحب الزمان ادركنا
سلام عليكم


اس سوال کا جواب دینے سے پہلے بطور تمہید یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ اہل عرب کے ہاں اصل نام کے علاوہ لقب اور کنیت رکھنے کا عام رواج تھا.


نام، لقب اور کنیت کی تعریف :


نام :


وہ خاص لفظ ہے جس سے آدمی رسمی طور پر جانا پہچانا جاتا ہے، بطور رسمی اس سے اس کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے (اصلی نام) جیسے محمد اور علی


لقب :


اصل اور پہلے نام کے علاوہ وہ لفظ و نام جو کسی خصوصیت کے ساتھ ہو بالفاظ دیگر ایسا نام جس سے کسی شخص (صاحب لقب) کی پسندیدہ و ممدوح اور مثبت یا ناپسندیدہ و مذموم اور منفی خصوصیت کا پتہ چلے (وصفی نام) جیسے امیر المومنین، سید الشہدا، زین العابدین، باقر العلوم اور صادق و امین وغیرہ یا کاذب و خائن وغیرہ


کنیت :


عربی زبان میں اصل نام اور لقب کے علاوہ مقرر کردہ ایسا نام اور لفظ جس کے پہلے اب، ام، ابو، ابی، ابن اور بنت وغیرہ موجود ہوں (باپ، ماں یا اولاد وغیرہ کی طرف نام منسوب کرنا) جیسے ابوالقاسم، ابوطالب، ابوزینب، ام کلثوم، ام البنین، ام ہانی، بنت حوا اور ابن ہشام وغیرہ


اکثر و بیشتر یہ اشخاص (صاحب کنیت) کی تحسین و تعریف اور تعظیم کے لیئے استعمال ہوتی ہے.


البتہ بعض اوقات کسی شخص کی ناپسندیدہ و منفی خصوصیت کی وجہ سے رکھی جاتی ہے جیسے ابوجَہل اور ابن الوقت


واضح رہے کہ کبھی کبھار تَقِیَّہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے مثال کے طور پر برادران سنی کے جلیل القدر اور بڑے عالم، امام التابعین، فقیہ اور عبادت گزار "حسن بصری" بنو امیہ کے دور حکومت میں اپنی جان بچانے کی خاطر امیر المومنین علی (عليه السلام) کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ آپ کے لیئے "ابو زینب" (زینب کے باپ) کنیت استعمال کرتے تھے


اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں :


امیر المومنین حضرت علی (عليه السلام) کی بہت ساری کنیتیں ہیں ذیل میں چند کنیتیں درج ہیں:


  1. أَبُو الْحَسَن (حسن کے باپ) :

    1. اَلطَّبَقاتُ الکُبری - ج 3 ص 19 - تالیف ابن سعد - ناشر دار صادر - بیروت (سنی کتاب)

    2. اَلاِرشاد - ج 1 ص 5 - تالیف شیخ مفید - ناشر کنگرہ شیخ مفید

    آپ کی مشہورترین کنیت "ابوالحسن" ہے


  2. أَبُوالْحُسَيْن (حسین کے باپ) :

    1. تَذکِرَةُ الخَواصّ مِنَ الأمّة فی ذِکرِ خَصائصِ الأئمة - ص 16 - تالیف سبط ابن جوزی (سنی کتاب)

    2. -إعلامُ الوَریٰ بأعلامِ الهدی - ج1 ص 307 - تالیف شیخ طبرَسی - ناشر آل البیت

    یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ رسول کریم (صلى الله عليه وآله) کی حیات مبارکہ میں حضرت علی کو امام حسن اور امام حسین (عليهم السلام) نے "اے بابا" کہکر نہیں پکارا، رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کو "اے بابا" کہکر پکارتے تھے امام حسن حضرت علی (عليه السلام) کو "ابوالحسین" (حسین کے بابا ) اور امام حسین "ابوالحسن" (حسن کے بابا) کہتے تھے، رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کی وفات (شہادت) کے بعد حضرت علی (عليه السلام) کو "اے بابا" کہکر پکارنے لگے


    1. مَناقِبُ آلِ أبی طالب - ج 3 ص 113 - تالیف ابن شھر آشُوب - ناشر علامہ

    2. - بِحار الانوار - ج 35 ص 66 - ناشر مؤسسہ الوفا - شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید (سنی کتاب) سے منقول

  3. ابو الحَسَنَین (امام حسن اور حسین عليهم السلام کے باپ) :

  4. بِحار الانوار - ج 33 ص 248 - ناشر دار الرضا


  5. أَبُو السِّبْطَيْن (رسول خدا کے دو نواسے یعنی امام حسن اور حسین عليهم السلام کے باپ :

    1. اَلعَسَلُ المُصَفّٰی مِن تَهذِيبِ زَينِ الفَتٰی فِي شَرحِ سُورَة هَل أَتی - ج 2 ص 447 - تالیف احمد بن محمد بن علی عاصِمی - ناشر مجمع احیاء الثقافة الاسلامية (سنی کتاب)

    2. إعلامُ الوَریٰ بأعلامِ الهدی - ج1 ص 307 - تالیف شیخ طبرَسی - ناشر آل البیت

  6. ابوالرَّیحَانَتَین (دو پھول یعنی امام حسن و حسین علیهم السلام) کے باپ :

    1. تَذکِرَةُ الخَواصّ مِنَ الأمّة فی ذِکرِ خَصائص الأئمة - ص 16 - تالیف سبط ابن جوزی (سنی کتاب)

    2. إعلامُ الوَریٰ بأعلامِ الهدی - ج1 ص 307 - تالیف شیخ طبرسی - ناشر آل البیت

    روایت ہے کہ رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا :


    حسن و حسین دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیںٰ


  7. أَبُو شَبَّر (شبر کے باپ) :

    1. ألرَّوضَة فِی فضائل أمیرالمؤمنین علی بن أبی طالب علیه السلام - ص 232 - تالیف شاذان بن جبرئیل قمی

    2. اَلهِدایَةُ الکُبْری -ٰ ص 93 - تالیف حسین بن حَمدان خَصیبِی - ناشر البلاغ

  8. أَبُو شَبِير ( شبیر کے باپ) :

    1. اَلهِدایَةُ الکُبْریٰ - ص 93 - تالیف حسین بن حمدان خصیبی - ناشر البلاغ

    2. ألرّوضَة فی فضائل أمیرالمؤمنین علی بن أبی طالب علیه السلام - ص 232 - تالیف شاذان بن جبرئیل قمی

    ان دو کنیتوں کی وجہ کا حاصل کلام یہ ہے کہ امام حسن اور امام حسین (عليهما السلام) کی ولادت باسعادت کے بعد حضرت جبرئیل رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کے پاس تشریف لائے اور كہا: خدا فرماتا ہے کہ "علی کو آپ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی" پس اپنے دونوں فرزندوں کے نام ہارون کے دو صاحبزادوں کے نام یعنی شبر اور شبیر پر رکھیں. نبی (صلى الله عليه وآله) نے کہا "میری زبان عربی ہے" تو جبرئیل (عليه السلام) نے کہا "حسن اور حسین نام رکھ دیں" (یعنی عربی زبان میں "شبر" بمعنی "حسن" ہے اور "شبیر" بمعنی "حسین" ہے ) پھر رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے اپنے بڑے نواسے کا نام "حسن" رکھا اور چھوٹے نواسے کا "حسین"


    ِعُیُونُ أخْبارِ الرِّضاعليه السلام - ج 2 ص 25 اور 26 - تالیف شیخ صدوق - ناشر منشورات جهان


    ملحوظ خاطر رہے کہ "شبر و شبیر" سُریانی یا سامی یا عِبری زبان کا لفظ ہے، بعض لوگوں کے نزدیک حضرت موسی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی، شبر و شبیر حضرت ہارون کے بیٹے تھے، امام حسن کو "شبر" اور امام حسین کو "شبیر" بھی کہتے ہیں اس لیئے امیر المومنین علی (عليهم السلام ) کی کنیت "ابو شبر" اور "ابوشبیر" ہے.


  9. ابو زینب (زینب کے باپ)

  10. حسن بصری ( ان کے بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے) بنو امیہ کے زمانے میں جب امیر المومنین علی (عليه السلام) کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے تھے تو کہتے تھے "ابوزینب" نے کہا ہے.


    اَمَالِی سید مرتضی - ج 1 ص 162 - ناشر دار الفکر العربی


  11. ابو محمد (محمد کے باپ) :

    1. تَذکِرَةُ الخَواصّ مِنَ الأمّة فی ذِکرِ خَصائص الأئمة - ص 16 - تالیف سبط ابن جوزی (سنی کتاب)

    2. اَلْمَوسُوعَةُ الْکُبْری عَنْ فاطمَة الزّهراء علیها سلام الله -ج 9 ص 173 - تالیف اسماعیل انصاری زنجانی - ناشر دلیلنا

    امیر المومنین علی (عليه السلام) کے ایک فرزند "محمد حنفیہ" تھے شاید اس بنا پر آپ کو "ابو محمد" کہتے ہیں.


  12. أَبُو الْأَئِمَّه (ائمہ کے باپ) :

  13. اَلهِدایَةُ الکُبْریٰ - ص 93 - تالیف حسین بن حمدان خصیبی - ناشر البلاغ


  14. أَبُو النُّور (نور کے باپ) :

  15. اَلهِدایَةُ الکُبْریٰ - ص 93 - تالیف حسین بن حمدان خصیبی - ناشر البلاغ.


    اس کنیت کی وجہ تسمیہ کے بارے میں احتمال ہے کہ گیارہ امام (عليهم السلام) نور الہی ہیں، وہ سب آپ کے فرزند ہیں اور آپ ان کے پدر بزرگوار ہیں اس لیئے "ابوالنور" کہتے ہیں


  16. ابوالقاسِم (قاسم کے باپ، قاسم بمعنی تقسیم کرنے والا) :

  17. تَذکِرَةُ الخَواصّ مِنَ الأمّة فی ذِکرِ خَصائص الأئمة - ص 16 - تالیف سبط ابن جوزی (سنی کتاب)


    محمد بن حنفیہ سے منقول ہے کہ جنگ جمل میں حضرت علی (عليه السلام) کو یہ کنیت دی گئی


    تاریخ مدینة دِمَشق - ج 42 ص 19 - تالیف ابن عَساکِر - ناشر دار الفکر للطباعة والنشر والتوزيع (سنی کتاب)


    ممکن ہے یہ کنیت اس وجہ سے دی گئی ہو کہ آپ جنت اور جہنم کے تقسیم کرنے والے ہیں


    رسول خدا (صلى الله عليه و آله) کا ارشاد گرامی ہے :


    " يَا عَلِيُّ أَنْتَ قَسِيمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ ..."


    اے علی آپ جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے والے ہیں ...


    بِشارَةُ الْمُصْطَفی لِشیعَةِ الْمُرْتَضی - ص 164 - تالیف عمادالدین طبری - ناشر النشر الاسلامی

  18. ابوقُضَم (قضم کے باپ یعنی توڑنے اور نابود کرنے والے) :

  19. جَواهرُ المَطالِب فی مَناقِبِ الإِمام علی بن أبی طالب - ج 1 ص 32 - تالیف ابو بَرَکات باعونی (سنی کتاب)


    حضرت علی (عليه السلام) اپنے مدمقابل، مخالف اور دشمنوں کو توڑ دیتے تھے اور تباہ و برباد کردیتے تھے، اس کو شکست دے دیتے تھے اس لیئے آپ کو "ابوالقضم" کہتے ہیں.


    منقول ہے کہ قریش جب حضرت علی (عليه السلام) کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے :


    احْذَرُوا الحُطَم، احْذَروا القُضَم


    پھوڑنے والے سے ڈرو اور بچو، توڑنے والے سے ڈرو اور بچو


    اس عبارت کے بعد "قُضَم" کی تشریح میں ابن اثیر لکھتے ہیں :


    اَلَّذِي يَقْضِم النَّاسَ فَيُهْلِكهم.


    قضم سے مراد وہ آدمی ہے جو لوگوں (اپنے مخالف اور دشمنوں) کو توڑتا ہے اور ان کو نابود و ہلاک کر دیتا ہے


    اَلنِّهایَةُ فِی غَرِیبِ الحَدیث وَ الأثر - ج 4 ص 78 - تالیف ابن اثیر - ناشر المكتبة العلمية - بيروت (سنی کتاب)

    اس کنیت کی وجہ :


    اس کے بارے میں امام صادق (عليه السلام) سے پوچھا گیا تو آپ نے جو فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :


    رسول خدا (صلى الله عليه وآله) مکے میں تھے جب آپ گھر کے باہر جاتے تھے تو بچے آپ کو پتھر سے مارتے تھے اور آپ پر مٹی پھینکتے تھے رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے حضرت علی (عليه السلام) سے بچوں کی جسارت اور شرارت کی شکایت کی تو حضرت علی (عليه السلام) نے فرمایا "میرے باپ ماں آپ پر قربان" اے رسول خدا جب آپ باہر جائیں گے تو میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا جب رسول خدا (صلى الله عليه وآله) باہر گئے تو آپ کے ساتھ امیر المومنین (عليه السلام) بھی تھے، حسب عادت بچوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیه وآله) کو ستایا تو امیر المومنین (عليه السلام) نے ان پر حملہ کردیا اور ان کے چہروں، ناکوں اور کانوں کو توڑ دیا (یعنی چہرہ؛ ناک اور کان کو اتنا دبا دیا جس سے انہیں بہت شدید درد ہونے لگا) اور وہ اپنے باپ دادا کے پاس روتے ہوئے آئے اور کہنے لگے :


    "قَضَمَنَا عَلِيٌّ، قَضَمَنَا عَلِي"


    علی نے ہمیں توڑ دیا، علی نے ہمیں توڑ دیا ( یعنی ہم کو بری طرح مارا پیٹا)


    اس وجہ سے حضرت علی (عليه السلام) کو "قَضِیم " سے یاد کیا جانے لگا (اور آپ کی کنیت "ابوقضم " ہو گئی)


    1. تفسیر قمی - ج 1 ص 114 - تالیف علی بن ابراھیم قمی - ناشر دار الکتاب - قم

    2. اَلبُرهان فِی تفسیر القرآن - ج 1 ص 682 - تالیف سید هاشم حسینی بَحرانی - ناشر مؤسسة البعثة

    یہاں یہ بات لائق توجہ ہے کہ حضرت علی (عليه السلام) کی کنیت "ابو قضم" دشمنوں نے رکھی تھی


    ایک غلط فہمی کا ازالہ :


    امیر المومنین علی (عليه السلام) کا بچوں کی گوش مالی کرنا ان پر ظلم نہیں بلکہ رسول اکرم (صلى الله عليه وآله) کا دفاع اور سزا و تادیب کے طور پر تھا کیونکہ کفار مکہ کے بچے یہ سب ان کے اکسانے اور ان کے ایما پر کر رہے تھے، اس وقت حضرت علی (عليه السلام) کی عمر تقریبا تیرہ سال تھی، اپنے ہم عمر بچوں کو لگام لگائی تاکہ ان کے باپ دادا کے لیئے بھی درس و سبق ہو


  20. ابو قُصَم (قصم کے باپ یعنی توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والے) :

    1. تاریخ خمیس - ج 1 ص 427 اور ج 2 ص 275 - تالیف شیخ حسین دِیار بَکرِی - ناشر دار الصادر (سنی کتاب)

    2. اَلْمَوسوعَةُ الْکُبْری عَنْ فاطمَة الزّهراء علیها سلام الله - ج 9 ص 173 - تالیف اسماعیل انصاری زنجانی - ناشر دلیلنا 

    حضرت علی (عليه السلام) نے اپنی کنیت "ابوقصم" خود رکھی تھی :


    اس حوالے سے اہم واقعہ ملاحظہ فرمائیں


    غزوہ احد میں مشہور صحابہ رسول خدا (صلى الله عليه و آله) کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے اور لشکر اسلام کے علم بردار "مُصعَب بن عُمَیر" شہید ہو گئے تو رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے علم حضرت علی (عليه السلام) کو عطا فرمایا، گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی، حضرت علی (عليه السلام) نے نہایت جوانمردی سے مقابلہ و جہاد کرنا شروع کیا رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے حضرت علی (عليه السلام) کو حکم بھیجا کہ پرچم کو آگے بڑھائیں حضرت علی (عليه السلام) حسب حکم پرچم کو لے کر آگے بڑھے اور فرمایا :


    " اَنَا ابو القُصَم "


    میں توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والا ہوں


    مشرکوں کے علمبردار "ابو سَعد بن اَبی طَلحَہ" نے آپ کو آواز دی کہ اے "ابوالقصم" میدان میں آتے ہو؟ آپ نے فرمایا، ہاں آتا ہوں اور اسی وقت آپ میدان میں تشریف لائے ایک دوسرے پر حملہ اور تھوڑی دیر کے ردوبدل کے بعد حضرت علی (عليه السلام) نے اس کو زور سے مارا تو مِرگی کے مریض کی طرح لڑکھڑا کر زمین پر گر پڑا
    اس کا کام تمام کیئے بغیر آپ واپس آئے تو اصحاب نے پوچھا اس کو قتل کیوں نہیں کیا ؟ آپ نے فرمایا :
    اس نے اپنی شرم گاہ کھول دی...اور میں جان گیا کہ خدا نے اسے قتل کردیا ہے


    اَلسِّيرَةَ النَّبَوِيَّة - ج 2 ص 73 اور 74 - تالیف ابن هشام - ناشر دار المعرفة (سنی کتاب)


    ابن هشام کے مطابق امیر المومنین علی (عليه السلام) نے خود کو "ابوالقصم" اس وقت کہا جب غزوہ احد میں مشرکوں کا علمبردار "ابوسعد ابن ابی طلحہ" آپ کے مقابل آیا
    لیکن ابو برکات باعونی کے مطابق اس وقت کہا جب غزوہ خندق میں "عَمرو بن عَبدِوُد " مبارز طلب کررہا تھا اور نامور صحابہ خاموش تھے گویا ان کو سانپ سونگھ گیا تھا


    حضرت علی (عليه السلام) جاہدانہ شان سے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور للکارا " اَنَا ابوالقُصَم " میں توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والا ہوں


    عمرو بن عبدود کو واصل جہنم کرنے کے بعد رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کے پاس آئے تو عمر بن خطاب نے حضرت علی (عليه السلام) سے کہا آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی ؟ سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے آپ نے فرمایا :
    جب میں نے اس کو مارا تو اس نے اپنی شرم گاہ کھول دی اس لیئے حیا کی وجہ سے نہیں اتاری


    جَواهرُ المَطالب فی مَناقب الإمام علی بن أبی طالب - ج 2 ص 117 اور 118 - تالیف ابو برکات باعونی (سنی کتاب)


    یاد رہے کہ اگر عمرو بن عبدود اپنی شرم گاہ نہ کھولتا تب بھی اس وقت کی رسم کے خلاف حضرت علی (عليه السلام) زرہ وغیرہ نہیں اتارتے اس لیئے کہ آپ کریم ہیں،شرم گاہ کھولنا پستی کی انتہا تھی،زرہ وغیرہ نہ اتارنا بزرگی کی انتہا تھی
    اپنے بھائی کے قاتل کی جوانمردی کے بارے میں عمرو بن عبدود کی بہن کا قصیدہ مشہور ہے


    غزوہ احد میں "ابو سعد بن ابی طلحہ" سے کہا "انا ابوالقصم " اور جنگ خندق میں "عمرو بن عبدود" کے سامنے اسی کنیت کو استعمال کیا
    ان دونوں باتوں میں تضاد نہیں ہے، ان دونوں باتوں کے درمیان یہ تطبیق بیان کی جاسکتی ہے کہ دونوں غزوات میں خود کو "ابوالقصم" کہکر دونوں ملعون کو للکارا تھا


    سطور ذیل کا بھی مطالعہ مفید ہوگا انشاءالله


    " قُضَم " اور "قُصَم" دونوں کے معنی توڑنے کے ہیں مگر "قصم" کا مفہوم ہے :


    بڑی شدت اور سختی سے اس طرح توڑنا جس میں اجزا کے جوڑ الگ الگ کردیئے جائیں اور ہڈیوں، جوڑوں میں سے ٹوٹنے کی آواز بھی آئے


    یہ دونوں تعبیر و کنیت ( ابو قضم اور ابو قصم ) جنگوں میں حضرت علی (عليه السلام) کی جوانمردی اور بہادری کی وجہ سے ہے، آپ نے فرمان الہی اور رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کے حکم پر کفار اور مشرکین کا پوری شدت و سختی اور قوت سے مقابلہ کیا اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئے، ان کو نابود و ہلاک کردیا.


    مذکورہ بالا عبارت میں لشکر کفار و مشرکین کے دو مشہور پہلوان اور سپہ سالار "ابو سعد بن ابی طلحہ" اور "عمرو بن عبدود" کے متعلق بتایا کہ امیر المومنین (عليه السلام) کے مزید حملوں سے بچنے کے لیئے اپنی شرم گاہ کھول دی کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایسی ہی حرکت کی ملاحظہ کریں :


    جنگ احد میں سپاہ کفار کے علمبردار "طلحہ بن عثمان" پر جب حضرت علی (عليه السلام) نے وار کیا تو اس کا پیر کٹ گیا خود کو بچانے کے لیئے اس نے اپنی شرم گاہ کھول دی ...


    جنگ صفین کے موقع پر لشکر معاویہ کے دو انتہائی پلید، خبیث اور مکار سردار عَمرو بن عاص" اور "بُسر بن اَرطات" کو ہلاک کرنے کے لیئے امیر المومنین علی (عليه السلام) نے دوڑایا تو "عمر بن عاص" مادر زاد ننگا ہو گیا اور "بسر بن ارطات" نے اپنی شرم گاہ کھول دی تو حیا کی وجہ سے حضرت علی (عليه السلام) نے اپنا منہ پھیر لیا ...


    شجاع، غیرت مند اور باحیا امام، حضرت علی (عليه السلام) مخالف لشکر کے سالار کتنے پست و ذلیل تھے کہ اپنا دفاع آلئہ جنگ کے بجائے آلئہ تناسل سے کیا


    دور حاضر میں بھی جو امیر المومنین (عليه السلام) سے دور ہیں وہ بزدل، بےغیرت اور بےحیا ہیں فلسطین میں ان کی ماں بہنوں... کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے ان کے ملکوں میں اسرائیلی عیاشی اور بدمعاشی کررہے ہیں لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بات اس سے بھی بہت آگے کی ہے اسرائیلی مجرموں کے گُن گا رہے ہیں
    یہ ان کی بزدلی، بےشرمی اور اپنے اسلاف کی سیرت و روش اپنانے پر منہ بولتا ثبوت ہے


    وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود


    یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود


  21. ابوتراب :

  22. اس کے متعلق پڑھنے کے لیئے نیچے دی گئی سرخی دبائیں


    ابوتراب کنیت کی اصل حقیقت اور تاریخ | اسرار | سنی حدیث کا جواب



No comments:

Comment

.
WhatsAppWhatsApp par sawaal karen