roman urdu me padhne ke liae click here
سوال از : محترمہ جناب ثانیہ زہرا صاحبہ / پٹنہ.
سلام علیکم آقا
مولا آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکهے الہی آمین
آقا میرا سوال یہ ہے کہ کربلا کا واقعہ ، کربلا میں ہونے کے کتنے سال بعد لکها گیا اور رائیٹر کا نام کیا تها ؟
شکریہ
ثانیہ زہرا فروم پٹنہ
جواب :
باسمه تعالی
یا صاحب الزمان ادرکنا
علیکم السلام و رحمة الله و برکاته
شکریہ، خدا آپ کو بهی ہمیشہ خوش و خرم اور اپنے حفظ و امان میں رکهے
مختلف وجوہات مثلا دشمن کی جانب سے اس دور میں واقعئہ کربلا کو نقل کرنے یا لکهنے یا لکهی ہوئی کتاب و رسالہ پیش کرنے کی ممانعت و پابندی کی بنا پر میرے لئے اگرچہ یہ بتانا مشکل اور دشوار ہے کہ واقعئہ کربلا پر سب سے پہلی کون سی کتاب لکهی گئی ؟ اور کتنے سال بعد لکهی گئی ؟ وثوق سے اس بارے میں نہیں بتا سکتے تاہم مراجع و مصادر، حدیث، تاریخ و مقتل کی کتابوں اور محققین کے اقوال و آرا میں تتبع اور تلاش کے بعد حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں
واقعئہ کربلا پر لکهی جانے والی پہلی کتاب کے متعلق چند اہم کتابوں کا تذکره ضروری ہے :
- "مقتل الحسین (علیه السلام) المعروف بہ مقتل اَصبَغ" - تالیف اَصبَغ بن نُباتَه مُجَاشِعِی :
- "مقتل الحسین (علیه السلام) المعروف بہ مقتل جُعفِی" - تالیف جابر بن یزید جعفی :
- "مقتل الحسین (علیه السلام) المعروف بہ مقتل عمار دُهنِی" - تالیف عمار بن ابی معاویہ بَجَلی دهنی :
- "تَسمِیَةُ مَن قُتِلَ مَعَ الحسین بن علی (علیهم السلام) مِن وُلدِهِ وَ اِخوَتِهِ وَ اَهلِ بَیتِهِ وَ شِیعَتِهِ " تالیف فُضَیل بن زُبیر اسدی رَسَّان :
- "مقتل الحسین (علیه السلام) المعروف بہ مقتل ابو مِخنَف" - تالیف ابو مخنف لوط بن یحیی اَزدی کوفی :
- الارشاد - جلد 2 - صفحہ 41 - تالیف شیخ مفید
- تاریخ طبری - جلد 4 - صفحہ 264
- بِحار الانوار - جلد 44 - صفحہ 343
"اصبغ بن نباته" امیرالمومنین علی (علیه السلام) کے خاص صحابی تهے
اس کتاب کا تذکره شیخ طوسی نے اپنی کتاب "الفِهرِست" میں صفحہ 86 پر کیا ہے
"ثَوابُ الاَعمال و عِقابُ الاَعمال" میں صفحہ 218 و 219 پر شیخ صدوق نے واقعئہ کربلا کے متعلق ایک طولانی روایت کا ذکر کیا ہے جس کے ناقل خود "اصبغ بن نباته" ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "اصبغ بن نباته" واقعئہ کربلا کے وقت زنده تهے
ان کی وفات تقریبا سنہ 100 ہجری کے بعد ہوئی، اس کے مطابق یہ کتاب واقعئہ کربلا کے تقریبا 39 یا 40 یا 59 سال بعد لکهی گئی
البتہ بعض محققین کا ماننا ہے کہ یہ کتاب اصبغ بن نباته کے فرزند "قاسم" نے لکهی ہے، غلطی سے اس کی نسبت باپ (اصبغ بن نباته) کی طرف دی گئی ہے
یہ امام باقر اور امام صادق (علیهم السلام) کے صحابی تهے
اس مقتل کا تذکره کتاب "رِجال نَجَاشی" کے صفحہ 128 اور 129 پر ہے
مؤلف کا انتقال واقعئہ کربلا کے تقریبا 67 سال بعد ہوا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکوره 67 سال کے درمیان میں یا اس کے بعد یہ کتاب لکهی گئی ہے
یہ بهی امام باقر اور امام صادق (علیهم السلام) کے صحابہ میں سے تهے
ان کی وفات واقعئہ کربلا کے تقریبا 72 سال بعد ہوئی لہذا یہ کتاب اس 72 سال کے اندر لکهی گئی ہے
یہ بهی امام باقر اور امام صادق (علیهم السلام) کے اصحاب میں سے تهے
("مُعجَمُ رجالِ الحدیث" جلد 14 - صفحہ 346 - تالیف آیت الله خوئی)
فضیل بن زبیر کا انتقال واقعئہ کربلا کے تقریبا 89 یا 100 سال بعد ہوا، اس کا مطلب ہے کہ واقعئہ کربلا کے بعد تقریبا 89 یا 100 سال کے درمیان یہ کتاب لکهی گئی
"ابو مخنف" امام صادق (علیه السلام) کے صحابی تھے
یہ کتاب واقعئہ کربلا کے تقریبا 66 یا 69 سال بعد تالیف کی گئی، اس پر تاریخی قرینہ مقتل ابو مخنف میں ابو مخنف کی یہ عبارت ہے :
" ... أقبَلَ مُسلِمُ [ بنُ عَقيلٍ ] حَتّى دَخَلَ الكوفَةَ، فَنَزَلَ في دارِ المُختارِ بنِ أبي عُبَيدٍ(ثَقَفی)، وهِيَ الَّتي تُدعَى اليَومَ دارَ سَلَمِ بنِ المُسَيَّبِ ... "
" ...مسلم[ بن عقیل] کوفہ آئے اور مختار بن ابو عُبَید (ثَقَفی) کے گهر میں سکونت اختیار کی اور یہ وه گهر ہے جو آج "سَلَم بن مُسَیَّب" کے گهر کے نام سے جانا جاتا ہے ... "
[واضح رہے کہ "تاریخ طبری" کا جو نسخہ میرے پاس ہے اس میں "سلم بن مسیب" کے بجائے "مُسلم بن مسیب" لکها ہے اور "بحار الانوار" کا جو نسخہ میرے سامنے ہے اس میں "سالم بن مسیب" لکها ہے]
"ابو مخنف" کی اس عبارت "یہ وه گهر ہے جو آج 'سَلَم (یا سالم یا مسلم) بن مُسَیَّب' کے گهر کے نام سے جانا جاتا ہے" سے اس بات کا انکشاف کر سکتے ہیں کہ "ابو مخنف" جب اس کتاب کی تالیف میں مشغول تھے اس وقت مذکوره گهر "سلم (یا سالم یا مسلم) بن مسیب" کا تها اور "طبری" کی روایت کے مطابق مسلم (یا سالم یا سلم) بن مسیب سنہ 128 ہجری قمری تک حیات تهے
اس بنیاد پر گمان غالب ہے کہ ابو مخنف کی کتاب "مقتل الحسین (علیه السلام)" سنہ 127 سے 130 ہجری تک کے دوران تدوین کی گئی ہے، یعنی یہ کتاب واقعئہ کربلا کے تقریبا 66 یا 69 سال بعد کی ہے
مذکوره بالا کتابوں میں سے اگرچہ بعض مورخین اور محققیق نے "مقتل ابو مخنف" کو سب سے پرانی تحریر قرار دیا ہے تاہم چونکہ اس کے خلاف بهی اقوال موجود ہیں اس لئے کسی ایک کتاب کو حقیقی اور یقینی طور پر پہلی کتاب قرار دینا مشکل ہے
خلاصئہ کلام :
" مقتل ابو مخنف" کو بعض شیعہ اور اکثر سنی محققین نے واقعئہ کربلا پر سب سے پہلی کتاب مانا ہے، اس سلسلے کی اولین کتابوں میں شمار کیا ہے
شاید یہی وجہ ہے کہ واقعئہ کربلا سے متعلق "ابو مخنف" کی بیان کرده روایات کا ذخیره سنی کتابوں جیسے "تاریخ طبری" اور "تاریخ ابن سعد" اور شیعہ کتابوں مثلا "الارشاد" سمیت کثیر کتب تاریخ و احادیث میں ملتا ہے
بظاہر "طبری" اور "شیخ مفید" کے پاس مقتل ابو مخنف کا اصل و قدیم نسخہ موجود تها لیکن افسوس صد افسوس وہ نسخہ ضائع ہو گیا یا ضائع کردیا گیا و جلا دیا گیا
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ واقعئہ کربلا کے بارے میں جو معلومات ہمارے پاس ہیں یہ خود واقعئہ کربلا کا بلاشبہ ایک معجزه ہے کیونکہ اس کو ہمیشہ چھپانے، مٹانے، سینسر اور ضبطی کی بهرپور کوشش کی گئی اور کوشش کرتے رہتے ہیں، اس کے باوجود یہ واقعہ آج بهی زنده جاوید، قائم و دائم اور تر و تازه ہے جو پوری انسانیت کو ہدایت و رہنمائی کی منزل دکهاتا ہے
نیچے دی گئی ویڈیو دیکھنا مفید ہے انشاءالله
Karbala ke raawi aur janaab-e-sakina (s.a)
والسلام
سید شمشاد علی کٹوکهری
خادم اداره دارالعترت عظیم آباد / پٹنہ - شعبئہ سوالات قم / ایران
3 / رجب / 1444 ھ.ق
روز شہادت امام ہادی (علیه السلام)
رومن اردو سے اردو رسم الخط میں تبدیل
No comments:
Comment