roman urdu me padhne ke liae click here
سوال از : محترم جناب تنویر حسین مرزا صاحب / بمبئی
السلام علیکم
آقا ہمارا سوال یہ ہے کہ سلام کرنا مستحب کیوں ہے ؟ اور سلام کا جواب دینا واجب کیوں ہے ؟
جواب :
باسمه تعالى
يا صاحب الزمان ادركنا
عليكم السلام و رحمة الله و بركاته
سلام کرنا سنت و مستحب ہے، مؤکد مستحبات میں سے ہے، یعنی سلام کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے
مستحب ہونے پر دلیل آیت و روایت ہے
آیت :
سورہ انعام آیت 54 میں ہے :
" وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ..."
" اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو کہ دیجیئے کہ تم پر سلام ہو ... "
روایت :
امام صادق ( عليه السلام ) نے فرمایا :
" يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي وَ الْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ وَ إِذَا لَقِيَتْ جَمَاعَةٌ جَمَاعَةً سَلَّمَ الْأَقَلُّ عَلَى الْأَكْثَرِ وَ إِذَا لَقِيَ وَاحِدٌ جَمَاعَةً سَلَّمَ الْوَاحِدُ عَلَى الْجَمَاعَةِ "
مفہوم و ترجمہ :
"( اونٹ، گھوڑے، سائیکل اور گاڑی وغیرہ پر ) سوار، پیدل چلنے والوں اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور جب کوئی گروہ (جَتَّھا) دوسرے گروه (جماعت) سے ملے تو کم تعداد والے (تھوڑے لوگ) زیاده تعداد والوں کو سلام کریں اور جب ایک شخص کسی گروه سے ملے تو ایک (اکیلا) شخص، گروه (جماعت) کو سلام کرے"
(مِشکاةُ الاَنوار فِی غُرَرِ الاَخبار - صفحہ 346 - تالیف علی بن حسن بن فضل طبرسی)
واضح رہے کہ امام صادق (علیه السلام) نے اس روایت میں بتایا ہے کہ سلام کرتے وقت کن آداب کا خیال رکهنا چاہیئے اور جو ذکر کیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر سوار، پیدل چلنے والوں ... کو سلام نہ کرے تو پیدل چلنے والا ... بهی خاموش رہے سلام نہ کرے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہتر یہ ہے، سوار ... پیدل چلنے والوں ... کو سلام کرے یعنی سلام کرنے میں سبقت و پہل کرے
امام (علیه السلام) کا یہ فرمان استحباب کے طور پر ہے اور تواضع و خاک ساری کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہے اور معلوم ہو کہ سلام کرنے والا کبر و نَخوَت سے بری ہے، لہذا اگر سوار ... سلام نہیں کرتا ہے تو پیدل چلنے والے ... کو چاہیئے کہ وه سلام کرے
سلام کا جواب دینا واجب ہے :
اس پر دلیل سوره نساء کی آیت 86 ہے :
" وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ... "
"اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچها جواب دو یا انہیں الفاظ کو (جواب میں) لوٹا دو ..."
فقہائے کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے
جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچها جواب دو :
اس کا مطلب یہ ہے کہ "سلام علیکم" کے جواب میں صرف "علیکم السلام" نہ کہیں بلکہ "علیکم السلام" کے بعد مثلا "و رحمة الله" کا اضافہ کردیا جائے اور "سلام علیکم و رحمة الله" کے جواب میں مثلا "و برکاته" کا اضافہ کردیا جائے یعنی اس کے جواب میں مثلا "علیکم السلام و رحمة الله و برکاته" کہیں
ملحوظ خاطر رہے کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دینا مستحب ہے لیکن نماز میں مشغول شخص، اضافہ کے ساتھ جواب نہیں دے سکتا ہے
سلام اور جواب سلام کے مستحب اور واجب ہونے کی حکمت اور مصلحت کیا ہے ؟
اگر چہ احکام الہی (یعنی فروع دین) تَعَبُّدی ہیں، بہت سارے احکام الہی کی علت، حکمت اور حقیقی فلسفے سے ہم واقف نہیں ہیں اور ان کی حکمت اور مصلحت کو جاننا بهی ہماری ذمہ داری نہیں ہے
شاید سلام کے مستحب ہونے کی حکمت و مصلحت یہ ہو کہ سلام کرنے والا ایسی دعا دیتا ہے جس کی ضرورت ہر شخص کو ہے یعنی "تم پر ہمارا سلام ہو، تم پر الله کی سلامتی ہو" بالفاظ دیگر "تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامت رہو"
ملاقات کے وقت پیار و محبت، دوستی، جذبۂ اکرام و خیر اندیشی کا اظہار کرتا ہے اور مخاطب کو مانوس و مسرور کرتا ہے
سلام ایک دوسرے کے دل میں محبت پیدا کرنے کا سب سے اعلی طریقہ ہے، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ہے، باہمی تعلق و اعتماد کا وسیلہ ہے
دوسرے یہ کہ سلام کرنا اسلام کا شعار ہے، اس کی اہمیت و فضیلت ہے اور باعث اجر و ثواب ہے
جواب دینا واجب ہے :
شاید اس کی حکمت و مصلحت یہ ہو کہ مسلمانوں کے ایک دوسرے پر کئی حقوق ہیں جن میں سے ایک سلام کا جواب دینا ہے لہذا جسے سلام کیا جائے اس پر حق کی ادائیگی واجب ہے
تبصره :
تعبدی کا معنی یہ ہوتا ہے کہ یہ وه حکم ہے جو خدا نے دیا ہے، صرف اس قدر ثابت ہو جائے کہ یہ حکم خدا کی جانب سے ہے یہی کافی ہے، بنده اس بات کا پابند نہیں ہے کہ اس کی دلیل، حکمت اور علت کو سمجهے، وه صرف اس بات کا پابند ہے کہ خدا کے اس حکم پر عمل کرے
والسلام
سید شمشاد علی کٹوکهری
خادم ادارهٔ دارالعترت عظیم آباد / پٹنہ - شعبۂ سوالات قم / ایران
23 / ربیع الثانی / 1444 ھ.ق
رومن اردو سے، اردو رسم الخط میں تبدیل
No comments:
Comment