کیا "لبيك ياحسين" کہنا شرک ہے ؟ اور سب سے پہلے "لبيك يا حسين" کس نے کہا ؟ - Edaara-e-darul itrat
Takhribe jannatul baqi ka seyaasi pas manzar Qabre hazrat Faatemah | aap ne kis ko apni namaaze janaaza me shirkat ki aejaazat nahi di ?

Thursday, September 29, 2022

کیا "لبيك ياحسين" کہنا شرک ہے ؟ اور سب سے پہلے "لبيك يا حسين" کس نے کہا ؟

roman urdu me padhne ke liae click here


بسم الله الرحمن الرحيم

ياصاحب الزمان ادركنا


کیا "لبيك ياحسين" کہنا شرک ہے ؟ اور سب سے پہلے "لبيك يا حسين" کس نے کہا ؟


مفتیان دیوبند کا ایک فتوی نظروں سے گزرا تو سوچا اس کا جواب دے دوں لیکن جواب دینے سے پہلے سوال اور اس کے جواب میں جاری ہونے والا فتوی ملاحظہ فرما لیں :


سوال : کیا لیبک یا حسین کہنا شرک ہے ؟ اور کیا اس کو ٹائپ کرکے مسیج بھیجنا بھی شرک مانا جائے گا ؟


جواب :


بسم الله الرحمن الرحيم


”لبیک یا حسین“ کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ کہنے والا شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو حاضر و ناظر سمجھ کر ان کے حضور میں حاضری دے رہا ہے اور یہ عقیدہ شرکیہ عقیدہ ہے؛ لہٰذا اس جملہ کو لکھنا اور اس کو ٹائپ کرکے میسج بھیجنا جائز نہیں، اس سے احتراز لازم ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند / انڈیا


دیوبندی مفتیوں کے اس فتوی کا جواب یہ ہے کی "لبيك" کے معنی ہیں "میں حاضر ہوں" اگر بندوں مثلا امام حسین (علیه السلام) کے لئے اس لفظ کا استعمال شرکیہ عقیدہ ہے تو آپ کے نزدیک صحابہ میں ایک بہت اونچا مقام رکھنے والے صحابی نے بھی اس شرک کا ارتکاب کیا ہے ، اس صحابی کو آپ کے علماء اور محدثین "امام الفقہا" کہتے ہیں اور ان کے نزدیک وہ حلال اور حرام کا سب سے زیاده علم رکهنے والے ہیں اور آپ کی تاریخ و روایت کے مطابق رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کے زمانہ میں فتویٰ دینے کی اہم ذمہ داری ان کے سپرد تهی اور ابوبکر کے عہد خلافت میں یمن میں قاضی تهے ...


آپ کے نزدیک اس خوش نصیب صحابی کا نام "مُعاذ بن جَبَل" ہے


اس تعلق سے صحاح ستہ (سنی برادران کے نزدیک حدیث کی چهہ مستند کتابوں) میں سے صرف دو کتاب کی چَشم کُشا حدیث ملاحظہ فرمائیں ‌:


معاذ بن جبل سے روایت ہے :


" عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : بَيْنَمَا أَنَا رَدِيفُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا آخِرَةُ الرَّحْلِ ، فَقَالَ : يَا مُعَاذُ ، قُلْتُ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ


ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ، ثُمَّ قَالَ : يَا مُعَاذُ ، قُلْتُ : لَبَّيْكَ يا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثُمَّ سَارَ سَاعَةً


ثُمَّ قَالَ : يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ ، قُلْتُ : لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ، قَالَ : هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ ؟ ، قُلْتُ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ


قَالَ : حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ : أَنْ يَعْبُدُوهُ ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا


ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ، ثُمَّ قَالَ : يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ ، قُلْتُ : لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ


قَالَ : هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوهُ ؟ ، قُلْتُ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ


قَالَ : حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ. "


ترجمہ :


" معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا ہے کہ : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سواری پر آپ کا ردیف تها (یعنی آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا) سوا کجاوہ کے آخری حصہ کے میرے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اے معاذ ! میں نے عرض کیا : لبیک وسعدیک (میں حاضر ہوں آپ کی خدمت میں اور آپ کے تعمیل ارشاد کے لئے موجود ہوں اور اپنی سعادت سمجهتا ہوں) ای رسول خدا !


پھر تھوڑی دیر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) چلتے رہے پھر فرمایا : اے معاذ ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک ای رسول خدا ! پھر تھوڑی دیر مزید نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) چلتے رہے۔


پھر فرمایا، اے معاذ ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ ! فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔


فرمایا : اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔


پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا : اے معاذ بن جبل ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ !


فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ جب بندے یہ کر لیں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔


فرمایا کہ بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔


حوالہ :


  1. صحیح بخاری - جلد 4 - صفحہ 482 - کتاب الرقاق (دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں) - باب 808

  2. صحیح مسلم بشرح الامام النَّوَوِی - جلد 1 - از صفحہ 229 تا 233 - کتاب الایمان (ایمان کے احکام و مسائل کے بیان میں)

مذکوره روایت میں ملاحظہ فرمایا کہ معاذ بن جبل نے چار مرتبہ "لبیک یا رسول الله" کہا اور رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے معاذ کو یہ کہنے سے منع نہیں کیا لہذا اس روایت سے (الله کے علاوه) بندوں کے لئے بهی "لبیک" کے استعمال کا جواز ثابت ہے


جب بندوں کے لئے اس لفظ کا استعمال جائز ہے تو جو "ابو عبدالله" (الله کے بندوں کا باپ) ہے یعنی سید الشہداء امام حسین (علیه السلام) کے لئے بدرجۂ اَولیٰ "لبیک" کہا جا سکتا ہے ، نہ صرف یہ کہ کہنا جائز ہے بلکہ کہنا چاہیئے کیونکہ قرآن و حدیث اور ان کی تشریحات و توضیحات کے مطابق رسول خدا اور علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین [پنجتن] (سلام الله علیهم) وجہ تخلیق عَالَمِ مَوجُودات ہیں


ساری کائنات کی تخلیق نور محمدی کے توسط سے ہوئی اور معتبر حدیث کے مطابق "حسین رسول سے ہیں اور رسول حسین سے" لہذا دنیا اور اس کے موجودات کی تخلیق نور حسین سے بهی ہوئی ، ساری کائنات امام حسین (علیه السلام) کے لئے بنائی گئی ، اس لحاظ سے "ابو عبدالله" یعنی امام حسین (علیه السلام) عالم موجودات کے باپ ہیں ، دوسرے یہ کہ دین کی بقا اور ہر بندے کی عبادت آپ کے قیام ، شہادت اور قربانیوں کی مرہون منت ہے


اس کے پیش نظر بهی آپ کے لئے "لبیک" کہنا چاہیئے


کیا نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) اور آپ کے بڑے صحابی معاذ بن جبل کا علم مفتیان دیوبند کے علم سے کم ہے ؟


مفتیان دیوبند کو معلوم ہے کہ "لبیک یا رسول الله" یا "لبیک یا حسین" کہنا کفریہ کلام ہے لیکن رسول اکرم (صلی الله علیه و آله) اور آپ کے امام الفقہا معاذ بن جبل کو نہیں پتا !!!


مفتیان دیوبند کو چاہیئے کہ سب سے پہلے اپنی کتابیں پڑھ لیں پهر فتوی جاری کریں


اور سنی برادران دارالافتاء دیوبند کے افترا پردازی پر مبنی اور جاہلانہ فتووں سے احتراز کریں


دیوبندی مفتی دوسروں کو کافر و مشرک نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ دیوبندی وہابی اپنے عقائد کفریہ ، خبیثہ کے سبب بحکم علمائے حرمین شریفین ، مصر ، شام اور ہند ... کافر و مرتد اور دین اسلام سے خارج ہیں


" چَہلنی کیا کہے سوپ کو کہ جس میں نَو سَو چهید "


روز عاشوره ظہر کے بعد امام حسین (علیه السلام) نے اپنے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا :


" ... يا أُمَّةَ الْقُرآنِ! هذِهِ الْجَنَّةُ فَاطْلُبُوها، وَ هذِهِ النّارُ فَاهْرِبُوا مِنْها فَاَجَابُوا بَاْلتَّلْبِیَة وَ ضَجُّوا بِالْبُکَاء ... "


" ... اے امت قرآن ! (قرآن پر ایمان لانے والے اور اس کی پیروی کرنے والی جماعت) یہ جنت ہے اس کی طلب کرو اور یہ جہم ہے اس سے بهاگو ، اصحاب نے تَلْبِیَہ (لبیک یا حسین یعنی اے امام ہم حاضر ہیں آپ کی خدمت میں) سے جواب دیا اور آه و زاری کیا ... "


حوالہ :


معالی السبطین - جلد 1 - صفحہ 223 - تالیف عالم عامل ، محدث کامل شیخ مہدی مازندرانی


اس کتاب کے مطابق سب سے پہلے "لبیک یا حسین" کہنے والے آپ کے اصحاب باوفا ہیں


دیوبندی مفتیوں اور وہابیوں کو اس خوبصورت کلمہ و نعرے (لبیک یا حسین) سے پریشانی ہے کیونکہ اس میں ظالم سے مقابلہ کرنے اور ظلم کے خلاف ثابت قدم رہنے اور معصوم امام کی اطاعت کے لئے ایک دائمی درس و سبق ہے


نیچے دی گئی تحریر کا پڑھنا مفید ہے انشاءالله


  • وہابی مفتیوں کے عجیب و غریب و احمقانہ فتوے

  • سید شمشاد علی کٹوکهری
    خادم ادارهٔ دارالعترت


    2 / ربیع الاول / 1444 ھ.ق

    subscribe us on youtube

    1 comment:

    Comment

    .
    WhatsAppWhatsApp par sawaal karen