roman urdu me padhne ke liae click here
سوال از : محترم جناب صادق روشن علی صاحب (کونگو ساؤتھ آفریقا)
سلام علیکم
آپ کی ایک ویڈیو میں نے دیکھی جس میں جناب رقیہ (س) کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کی عمر تین یا چار سال کی تهی
میرا سوال یہ ہے کہ جناب سکینہ (س) کی کربلا میں کیا عمر تهی ؟ اور جناب سکینہ کہاں مدفون ہیں ؟
اور کیوں لوگ جب بهی مصائب بیان کرتے ہیں تو چار سال کی عمر جناب سکینہ (س) کی بتاتے ہیں ، جناب رقیہ (س) کا نام کیوں نہیں لیتے ؟
شکریہ
جواب :
باسمه تعالی
یا صاحب الزمان ادرکنا
علیکم السلام و رحمة الله و برکاته
جی ، وه ویڈیو تقریبا چهہ سال پرانی ہے
حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کی تاریخ ولادت مکمل طور پر واضح اور روشن نہیں ہے
مشہور قول کے مطابق اور اکثر مورخین کے نزدیک آپ کی ولادت باسعادت 47 ہجری قمری میں ہوئی
حوالہ :
السیده سکینة ابنة الامام الشهید ابی عبدالله الحسین - صفحہ 141 - تالیف سید عبدالرزاق مُقَرَّم
بظاہر سال اور تاریخ وفات میں اختلاف نہیں یے تقریبا تمام مورخین نے لکھا ہے کہ بروز جمعرات پانچ ربیع الاول 117ھ.ق میں آپ کا انتقال ہوا
حوالہ :
- سفينة البحار - جلد 4 - ص 213 - تاليف شيخ عباس قمى (شیعہ کتاب)
- تاريخ مدينة و دمشق - جلد 69 - ص 218 - تاليف ابن عَساکِر (سنی کتاب)
نتیجہ :
مشہور قول کے مطابق ولادت کا سال 47 ھ.ق ہے اور کربلا کا واقعہ 61 ھ.ق میں رونما ہوا ، اس اعتبار سے سنہ 61 ھ.ق کربلا میں آپ کی عمر تقریبا 14 سال تهی ، 47 ھ.ق سے لیکر 61 ھ.ق تک تقریبا 14 سال ہوئے
واضح رہے کہ 47 ھ.ق سے 117 ھ.ق تک جوڑیں تو وفات کے وقت آپ کی عمر تقریبا 70 سال تهی
دوسرے یہ کہ آپ کی وفات 117 ہجری قمری میں ہوئی اور 70 سال کی عمر میں انتقال فرمایا ، اس لحاظ سے بهی آپ کی ولادت 47 ھ.ق میں ہوئی ، نتیجتا کربلا میں آپ کی عمر 14 سال تهی
قرائن اور شواہد اس بات کے غماز ہیں کہ حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کربلا میں کم سن بچی نہیں تهیں بلکہ بالغہ اور رشیدہ تهیں ، مثال کے طور پر صرف دو شواہد پیش کر رہے ہیں :
- معتبر تاریخی مراجع و مصادر میں ہے کہ امام حسین (علیه السلام) نے آپ کی شادی اپنے بهتیجے یعنی عبدالله بن حسن (علیهما السلام) سے کی تهی
- کربلا میں جب امام حسین (علیه السلام) رخصت آخر کے لئے آئے تو سب کا نام لے کر کہا " تم پر میرا سلام ہو "
- یَنَابِیعُ المَوَدَّة - جلد 2 - ص 171 و 172 - باب 61 - تالیف سُلیمان بن ابراہیم قُندوزی (سنی کتاب)
- مَنَاقِبِ آلِ اَبی طالب - جلد 4 - ص 109 و 110 - تالیف ابو جعفر محمد بن علی المعروف بہ ابن شهر آشُوب (شیعہ کتاب)
حوالہ :
اِعلامُ الوَری بِاَعلام الهُدی - جلد 1 - ص 418 - تالیف شیخ طبرسی
یاد رہے کہ امام حسن (علیه السلام) کے ایک فرزند کا نام عبدالله اکبر اور دوسرے کا نام عبدالله اصغر (سلام الله علیهما) تها ، دونوں کربلا میں شہید ہوئے ، حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کی شادی عبدالله اکبر سے ہوئی تهی ، یہ عبدالله اصغر سے بڑے تهے
البتہ آپ دوشیزه ہی تهیں کہ شوہر شہید ہو گئے
حوالہ :
اَلمُحَبَّر - ص 438 - تالیف محمد بن حبیب بغدادی
واقعئہ کربلا کے پہلے بالغہ اور رشیده تهیں تبهی تو امام حسین (علیه السلام) نے شادی کر دی تهی
خواتین اور بچیوں نے جب امام (علیه السلام) کی آواز سنی تو ان کی گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہو گئیں ، حضرت سکینہ (سلام الله علیها) بهی فراق پدر میں گریہ کر رہی تهیں ، سکینہ سے امام (علیه السلام) کو بہت محبت تهی ، سینے سے لگایا اور دونوں آنکهوں کے درمیانی حصہ کا بوسہ لیا اور آنسو صاف کر کے یہ اشعار کہے :
سَيَطُولُ بَعْدِي يَا سَکِيْنَةُ فَاعْلَمِي
مِنْكِ اَلْبُكَاءُ إِذَا اَلْحِمَامُ دِهَانِي
لاَ تُحْرِقِي قَلْبِي بِدَمْعِكِ حَسْرَةً
مَا دَامَ مِنِّي اَلرُّوحُ فِي جُثْمَانِي
وَ إِذَا قُتِلْتُ فَأَنْتِ أَوْلَى بِالَّذِي
تَأْتِينَهُ يَا خَيْرَةَ اَلنِّسْوَانِ
ترجمہ و مفہوم :
اے سکینہ جان لو کہ میرے بعد
تمہارا گریہ طویل عرصے تک ہوگا
جب مجهے موت آجائے تو رونا
جب تک میرے جسم میں جان ہے
اپنے اشک حسرت و افسوس سے میرا دل و جگر کباب نہ کرو
اے عورتوں میں بہترین خاتون ، جب میں شہید ہو جاؤں گا تو تم سب سے زیاده سزاوار و مناسب رہو گی کہ میرے سرہانے آؤ (اور میرے سوگ میں بیٹهو)
حوالہ :
ملاحظہ فرمایا کہ امام حسین (علیه السلام) نے حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کو " خَیرَةُ النِسوَان " (عورتوں میں بہترین خاتون) کہہ کر خطاب کیا . عربی زبان کی لغت میں عام طور پر لفظ " نساء / نسوان " بالغہ عورتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ، کم عمر لڑکیوں کے لئے یہ لفظ رائج نہیں ہے
یہ بهی ایک شاہد ہے کہ حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کربلا میں بالغہ و رشیده تهیں
ہمارے درمیان مشہور ہے کہ آپ کربلا میں کم سن بچی تهیں ، مذکوره بالا بیان کے پیش نظر میرے لئے یہ قبول کرنا بہت مشکل و دشوار ہے
جو بچی کم سن تهی وه حضرت رقیہ (سلام الله علیها) تهیں (ویڈیو میں تفصیل بتا دی گئی ہے)
جناب سکینہ (سلام الله علیها) کہاں مدفون ہیں ؟
محل دفن میں بهی اختلاف ہے ، بعض کہتے ہیں مصر میں مدفون ہیں اور بعض کہتے ہیں سوریہ / دمشق میں دفن ہیں
لیکن مشہور و معروف شیعہ عالم دین " علامہ سید محسن امین " نے اپنی مشہور و معروف کتاب " اَعیَانُ الشِّیعة " کی جلد 3 ، ص 492 پر لکها ہے :
دمشق میں واقع مقبره " باب الصغیر " میں جو قبر حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کی طرف منسوب ہے وه صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اہل تاریخ کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ حضرت سکینہ (سلام الله علیها) مدینہ (جنت البقیع) میں مدفون ہیں
دمشق میں جو جگہ قبر سکینہ کے نام سے ہے وہاں شام کے کسی بادشاه کی بیٹی مدفون ہے ، اس لئے کہ قبر پر جو صندوق ہے اس پر خط کوفی میں لکها ہے " سکینة بِنتُ المَلِك " (سکینہ بادشاه کی بیٹی) ...
بعض دوسرے علماء و محققین جیسے شیخ عباس قمی نے اسی نظریہ کی تائید کی ہے کہ دمشق میں جو قبر ہے وه بادشاہوں کی لڑکیوں میں سے کسی ایک لڑکی کی قبر ہے ۔ حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کا انتقال مدینہ میں ہوا اور وہیں (جنت البقیع میں) مدفون ہیں
حوالہ :
- اعیان الشیعة - جلد 3 - ص 492
- سفینة البحار - جلد 4 - ص 213 - تالیف شیخ عباس قمی (صاحب مفاتیح الجنان)
کیوں لوگ جناب سکینہ (سلام الله علیها) کی عمر چار سال بتاتے ہیں اور جناب رقیہ (سلام الله علیها) کا نام نہیں لیتے ؟
یہ سوال آپ ان ذاکره اور ذاکرین سے کریں جو چار سال عمر بتاتے ہیں اور جناب رقیہ کا نام نہیں لیتے
تبصره :
شروع میں عرض کیا کہ حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کی شادی آپ کے چچیرے بهائی جناب عبدالله بن حسن (سلام الله علیهم) سے ہوئی
کربلا میں آپ کی شہادت کے بعد حضرت سکینہ (سلام الله علیها) نے تا حیات دوسری شادی نہیں کی
شیعہ مورخین اور علمائے رجال کا یہی ماننا ہے ، لیکن بعض سنی مورخین اور محدثین کہتے ہیں عبدالله بن حسن کی شہادت کے بعد متعدد شادیاں کیں ، " مُصعَب بن زُبَیر " (لعنة الله علیه) سے بهی کی (جن لوگوں نے مختار نامہ سریل دیکهی ہوگی اس پلید شخص کے بارے میں اجمالا جانتے ہونگے)
افسوس کا مقام یہ ہے کہ کثرت ازدواج کا افسانہ بعض شیعہ کتابوں کے صفحات میں بهی پہنچے
بعض شیعہ علماء بنو امیہ کے حکم پر درباری علماء ، محدثین اور بنام مسلمان ، غیر مسلم سے لکهوائی گئی حدیث اور تاریخ کی کتابوں سے متأثر ہوکر " مصعب بن زبیر " (لعنة الله علیه) سے شادی کی بیجا تاویل و توجیہ بهی کرتے ہیں (جو زنده ہیں خدا انہیں ہدایت دے اور جن کا انتقال ہو گیا ہے ان کی مغفرت کرے)
مصعب بن زبیر (لعنة الله علیه) و غیره سے حضرت سکینہ (سلام الله علیها) کے عقد کا افسانہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح جناب ام کلثوم بنت فاطمہ (علیهما السلام) کا عقد عمر بن خطاب سے
نیچے دی گئی سرخی دبا کر جواب کا پڑھنا مفید ہے انشاءالله
والسلام
سید شمشاد علی کٹوکهری
خادم اداره دارالعترت عظیم آباد / پٹنہ - شعبئہ سوالات قم / ایران
13 / صفر / 1444 ھ.ق
( رومن اردو سے اردو رسم الخط میں تبدیل )
اعلی مضمون ھے۔انسکلوپیڈیا امام حسین علیہ السلام محمد محمدی رے شہری نے بھی یہی لکھا ہے
ReplyDeleteشکریہ
Deleteآپ نے صرف امام حسن علیہ السلام کے دو بیٹے بتائے جب کہ قاسم علیہ السلام حسن مسنہ کہاں گئے آپ بلکل غلط بیانی کررہے ہو
ReplyDelete