خطبۂ غدیر میں صحیفۂ ملعونہ اور اصحاب صحیفہ سے کیا مراد ہے ؟ - Edaara-e-darul itrat
Takhribe jannatul baqi ka seyaasi pas manzar Qabre hazrat Faatemah | aap ne kis ko apni namaaze janaaza me shirkat ki aejaazat nahi di ?

Monday, September 26, 2022

خطبۂ غدیر میں صحیفۂ ملعونہ اور اصحاب صحیفہ سے کیا مراد ہے ؟

roman urdu me padhne ke liae click here


سوال از : محترم جناب عثمان افضل صاحب / پاکستان


میرا سوال یہ ہے کہ رسول الله (ص) کے خطبۂ غدیر خم میں ایک جگہ پر اصحاب صحیفہ کا ذکر ہوا ہے ، یہ اصحاب صحیفہ کون ہیں ؟ اور صحیفہ کا کیا ماجرا ہے ؟
جزاک الله


جواب :


باسمه جلت اسمائه
یا صاحب الزمان ادرکنا
سلام علیکم


جواب سے پہلے چند باتیں بطور تمہید سمجهنا ضروری ہے :


  1. جس صحیفہ کی طرف اشاره کیا ہے ، اسے "صحیفۂ ملعونہ" اور "صحیفۂ مشؤمہ" کہتے ہیں

  2. صحیفہ لفظ کا مطلب "مکتوب" اور "دستاویز" ہے

  3. ملعونہ کے معنی "جس پر لعنت کی گئی ہو" یا "لعنت کی گئی"

  4. مشؤمہ کا مطلب "منحوس" ہے

  5. صحیفۂ ملعونہ اور مشؤمہ کا مطلب ہوا "ایسا مکتوب یا دستاویز جس پر لعنت کی گئی ہے اور منحوس ہے"


  6. خطبۂ غدیر خم میں صحیفۂ ملعونہ یا مشؤمہ سے مراد ایسا مکتوب یا دستاویز ہے جو حاسدین اور منافقین کے مابین غصب خلافت کے معاملے میں بطور سند لکها یا لکهی گئی

  7. رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے ان منافقین یا اصحاب صحیفہ کو خطبۂ غدیر میں دوزخی کہا ہے اور ان سے اپنی بیزاری کا اعلان کیا ہے ، صاف فرما دیا کہ ان سے بیزار ہوں

  8. سوال سے مربوط خطبۂ غدیر خم کے متن کا حصہ اس طرح ہے :

  9. مَعاشِرَ النّاسِ، إنَّهُ سَیَکُونُ مِنْ بَعْدی أَئِمَّةٌ یَدْعُونَ إلَی النّارِ وَیوْمَ الْقِیامَةِ لا یُنْصَرُونَ.


    مَعاشِرَ النّاسِ، إنَّ اللّه‏َ وَأَنَا بَریئانِ مِنْهُمْ.


    مَعاشِرَ النّاسِ، إنَّهُمْ وَأَنْصَارَهُمْ وَأَتْبَاعَهُمْ وَأَشْیَاعَهُمْ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النّارِ وَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرینَ.


    ألَا اِنَّهُـمْ أَصْحـابُ الصَّحیفَـةِ، فَلْیَنْظُـرْ أَحَـدُکُمْ فـِی صَحیفَتِـهِ!!


    ترجمہ :


    اے لوگو ، بیشک میرے بعد عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جو جہنم کی طرف بلائین گے اور قیامت کے دن (تنہا رہیں گے) ان کی مدد نہیں کی جائے گی


    اے لوگو ، خدا اور میں ان سے بیزار ہوں (ان سے نفرت کرتے ہیں)


    اے لوگو ، وه (یعنی امام نار) اور ان کے ساتهی اور ان کے فرماں بردار اور ان کے پیروکار (سب) آگ (جہنم) کے سب سے نچلے ترین درجے کی گہرائیوں میں ہیں اور تکبر کرنے والوں کا ٹهکانا بہت ہی برا ہے


    خبردار ، وه لوگ (یعنی جہنمی حکمران) "اصحاب صحیفہ" (صاحبان صحیفہ) ہیں ، پس تم میں سے کوئی ایک اپنے صحیفے میں دیکهے (کہ اس میں کیا لکھا ہے)


اس تمہید کے بعد مذکوره سوال کا جواب ملاحظہ کیجیئے


واقعۂ اصحاب صحیفہ کا خلاصہ :


بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دو مرتبہ رونما ہوا


پہلا صحیفۂ ملعونہ :


اس صحیفۂ ملعونہ کا واقعہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) کے آخری حج کے بعد اور غدیر خم کی جانب روانگی کے پہلے مکہ ہی میں رونما ہوا


اس صحیفہ کے ممبران ، خانۂ کعبہ کے پاس اکٹها ہوئے اور عہد و پیمان باندها کہ رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کے بعد خلافت آپ کے خاندان میں نہ رہے اور امیرالمومنین علی (علیه السلام) خلیفہ نہ رہیں بلکہ ہم لوگ خلیفہ بن بیٹهیں


اس اقرارنامہ (دستاویز و تحریر) پر تمام شرکاء نے دستخط کیا اور ابوبکر و عمر و دوسرے منافقین اور ممبران کی باہمی مشاورت اور منظوری سے یہ بهی فیصلہ کیا گیا کہ آخری حج سے واپسی کے وقت "هَرشا" یا "هَرشی" نامی خطرناک پہاڑی دره میں (جو جُحْفَہ و غدیر خم کے نزدیک واقع ہے) رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کے اونٹ کو بهڑکا کر ... آپ کو ہلاک کر دیا جائے تا کہ امیرالمومنین علی (علیه السلام) کو اپنا خلیفہ نہ بنا سکیں


رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کے قتل کی سازش رچنے والے صحابہ و منافقین اور ٹیم کی تعداد 14 تهی ، جنگ تبوک میں بهی قتل کی سازش رچی تهی مگر خدا نے حضرت جبرئیل کو بهیج کر رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کو ان کے دشمنوں کے اراده سے مطلع کر دیا اور حضرت (صلی الله علیه و آله) ان کے شر سے محفوظ رہے


پہلے صحیفۂ ملعونہ کے اصحاب اور رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کو قتل کرنے کی سازش رچنے والوں کے نام درج ذیل ہیں :


ابوبکر ، عمر ، عثمان ، معاویہ بن ابوسفیان ، عمرو بن عاص ، طلحہ ، ابو عُبَیدَه جَرَّاح ، عبدالرحمان بن عَوف ، سالِم مَولیٰ ابی حُذَیفَہ ، مُعَاذ بن جَبَل ، ابو موسیٰ اَشعَری ، مُغِیرَه بن شُعبَہ ، سعد بن ابی وَقَّاص ، اَوس بن حَدَثَان انصاری


(انہیں اصحاب عَقَبَہ بهی کہتے ہیں ، ان کی تعداد 14 تهی)


یہ ہے پہلے صحیفۂ ملعونہ کا ماجرا اور ان کے نام


دوسرا صحیفۂ ملعونہ :


یہ واقعہ ‌، واقعۂ غدیر کے بعد رونما ہوا ، رسول خدا (صلى الله عليه و آله) کو قتل کرنے کی سازش میں اپنی پوری کوشش کے باوجود کامیاب نہیں ہو پائے اور آخری نبی کا آخری حج تھا ، غدیر خم میں آخری نبی کا سب سے اہم آخری پیغام و اعلان امت کے نام یہ تھا کہ " جس کا میں مولا ہوں اس کے مولا علی بھی ہیں "


رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے علی (عليه السلام) کو امام و پیشوا مقرر کرکے اعلان کردیا تو حج و غدیر خم سے واپسی کے بعد تین خلفا کی سربراہی میں مدینے میں واقع ابوبکر کے گھر میں قتل کے خوف سے اور عہدے و منصب کی تڑپ و لالچ میں نئے مسلمان ہونے والے کچھ لوگ جمع ہوئے اور دوسرا عہد و پیمان یہ باندھا کہ علی (عليه السلام) کی امامت و خلافت کو قبول نہ کریں، آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو نقض و توڑ دیں اور بالترتیب چار لوگ یعنی ابوبکر ، عمر ، ابو عبیدہ جراح اور سالم بن حذیفہ خلیفہ بنیں ، شرکاء نے ان چار لوگوں کی تائید کی
اس میٹنگ میں 34 لوگ شریک ہوئے تھے ان میں سے اکثر ، قبیلوں کے سردار تھے


اس صحیفہ (دستاویز) پر حاضرین نے دستخط کیا اور مہر لگائی پھر صحیفہ کو ان کے نزدیک قابل اعتماد شخص " ابو عبیدہ جراح " کے حوالے کردیا اور خانۂ کعبہ کے پاس اسے دفن کردیا گیا ، عمر نے اپنے دور خلافت میں اس کو دفن کی جگہ سے نکالا


دوسرے صحیفۂ ملعونہ کے اصحاب :


ابھی عرض کیا کے دوسرے صحیفۂ ملعونہ میں عہد و پیمان باندھنے والوں کی تعداد 34 تھی ، 14 افراد تو وہی ہیں جن کا ذکر پہلے " صحیفۂ ملعونہ " میں ہوا ، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے رسول خدا (صلى الله عليه و آله) کے قتل کی سازش رچی تھی


باقی یعنی دوسرے 20 افراد میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :


ابو سفیان ، عِکرِمَہ بن ابوجَھل ، خالد بن ولید ، بِشر بن سعید، سُهَیل بن عَمرو ، صُهَیب بن سِنَان ، اَبُو اَعْوَر سُلَمِی ، صَفوان بن اُمَیَّه ، سعید بن عاص ، عَیَّاش بن ابو رَبِیعَه ، حکیم بن حِزام ، مُطِیع بن اَسوَد عَدَوِی ، ابوهُریره ، ابو طَلحه انصاری ، حُذَیفَه کا غلام سالِم ...


رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے علم غیب سے صحیفۂ ملعونہ اور اصحاب صحیفہ کی امت کو خبر دے دی تھی لیکن اس وقت کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اصحاب صحیفہ کون ہیں ؟ صرف ایک قلیل تعداد ان سے واقف تھی


بظاہر یہ معاہدہ ، واقعۂ غدیر کے خلاف اور غصب خلافت کے لیئے اصحاب صحیفہ کا پہلا اقدام تھا


اس معاہدے کی دستاویز اور منصوبہ کو اصحاب سقیفہ نے سقیفہ میں عملی جامہ پہنایا اور نافذ کیا


امیرالمومنین حضرت علی (عليه السلام) کی ولایت و امامت کی نفی کرنے کے لیئے اصحاب صحیفہ نے روایت جعل کی و گڑھی اور اس کی نسبت رسول خدا (صلى الله عليه و آله) کی طرف دے دی تاکہ بَزُعم خود کہیں کہ رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کے خاندان میں بطور میراث امامت کی کوئی جگہ اور حصہ نہیں ہے


روایت یوں ہے :


" نَحنُ مَعَاشِرَ الاَنبياءِ لَا نُوَرِّثُ، مَا تَرَكنَاهُ صَدَقَةٌ "


" ہم گروه انبیاء نہ وارث ہوتے ہیں، نہ میراث چھوڑتے ہیں ، ہم جو کچھ چهوڑ جاتے ہیں وه صدقہ ہو جاتا ہے "


بعد میں غصب فدک کے لیئے بھی اس روایت کو استعمال کیا گیا


شیعہ عقیدے کے مطابق خلافت و امامت موروثی نہیں ہے لیکن ارباب سقیفہ نے اس حدیث کے ذریعے معنوی میراث یعنی خلافت غصب کی اور مادی میراث یعنی فدک بهی غصب کیا


واضح رہے کہ رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے فدک اپنی بیٹی کو ہبہ کیا تها ، جب ابوبکر نے واپس نہیں دیا تو دختر رسول حضرت فاطمہ (سلام الله علیها) نے بعنوان میراث اپنا حق چاہا


حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حدیث پر اعتراض کا جواب دینے سے بچنے کے لیئے اس جعلی و من گھڑت حدیث میں تحریف بھی کردی ، بعض جگہوں پر " نحن معاشر الانبياء " (ہم انبیاء) کو حذف کرکے کہا گیا " اَنَّ رسولَ الله قَالَ " (بیشک رسول خدا نے کہا)


دوسرے صحیفۂ ملعونہ کے بعد رسول خدا ( صلوات الله عليه و آله ) نے اصحاب صحیفہ کو عہد جاہلیت کے قائدین سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا وه آگ کے تابوت میں ہیں اور اعلان کیا کہ اگر خدا اپنی امت کو صبر و تحمل اور امتحان کا حکم نہ دیئے ہوتا تو اصحاب صحیفہ کی گردن اڑا دیتا


افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نبی کریم (صلى الله عليه وآله) کے بہت زیادہ اہمیت کا حامل " خطبۂ حَجَّةُ الوَدَاع " (خطبۂ غدیر) کے بجائے " صحیفۂ ملعونہ و مشؤمہ پر عمل کرتی ہے


مزید جانکاری اور تحقیق کے لیئے ارباب علم و دانش درج ذیل کتابیں پڑھ سکتے ہیں :


  1. سُلَیْم بن قَیس هِلالی - صفحات 154 , 269 , 203 , 161 , 18 اور 204 - تالیف سلیم بن قیس هلالی

  2. بِحَارُ الاَنوَار - جلد 28 - از صفحہ 102 تا 106 - تالیف علامہ مجلسی

  3. مِرآتُ العُقُول فی شرح اخبار آلِ الرسول - جلد 5 - از صفحہ 53 تا 55 - تالیف علامہ مجلسی

  4. سَفینَةُ البِحار - جلد 5 - صفحہ 56 - تالیف شیخ عباس قمی

  5. طُرَفُ مِنَ الاَنبَاءِ وَ المَناقِب - از صفحہ 561 تا 567 - تالیف سید بن طاووس

  6. اِرشَادُ القُلُوب دَیلَمی - جلد 2 - از صفحہ 200 تا 204 - تالیف حسن بن محمد دیلمی

  7. البُرهان فی تفسیر القرآن - جلد 5 - صفحہ 317 - تالیف سید هاشم بَحرانی

اختتام پر یہ عرض کردوں کہ مذکوره بالا بیان اور خطبۂ غدیر کا تذکره سنی بهائیوں کے مصادر و مراجع میں ہے یا نہیں ؟ سوال اور اختصار کے پیش نظر اس کو نظرانداز کرتا ہوں ، اس کے حوالے سے اگر کوئی سوال یا شبہات ہیں تو پوچهیں انشاءالله سنی برادران کی کتابوں سے ہم جواب دیں گے


نیچے دیئے گئے جواب کا پڑھنا مفید ہے انشاءالله



والسلام

سید شمشاد علی کٹوکهری
خادم اداره دارالعترت عظیم آباد / پٹنہ - شعبۂ سوالات قم / ایران


28 / صفر / 1444 ھ.ق

◾روز شہادت رسول اکرم اور امام حسن (سلام الله علیهم)◾


رومن اردو سے ، اردو رسم الخط میں تبدیل

subscribe us on youtube

No comments:

Comment

.
WhatsAppWhatsApp par sawaal karen