roman urdu me padhne ke liae click here
بسم الله الرحمن الرحيم
ياصاحب الزمان ادركنا
عمر کا عورتوں پر ظلم و زیادتی کرنا
گھر میں گھس کر اپنی بہن کو مارنا پیٹنا
اس سے پہلے آدھی رات میں اپنی بیوی کو مارنے پیٹنے کا واقعہ بتایا تھا
آج میں آپ کو بتاؤنگا کہ عمر نے اپنی بہن کو کس طرح مارا پیٹا ، ملاحظہ فرمائیں :
انس بن مالک سے روایت ہے کہ :
" خَرَجَ عُمَرُ مُتَقَلِّدًا السَّيْفَ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، فَقَالَ لَهُ: أَيْنَ تَعمِدُ يَا عُمَرُ؟ فَقَالَ: أُرِيدُ أَنْ أَقْتُلَ مُحَمَّدًا قَالَ: وَكَيْفَ تَأْمَنُ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي زُهْرَةَ، وَقَدْ قَتَلْتَ مُحَمَّدًا؟ قَالَ: فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا أَرَاكَ إِلَّا قَدْ صَبَوْتَ وَتَرَكْتَ دِينَكَ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى الْعَجَبِ، إِنَّ خَتَنَكَ وَأُخْتَكَ قَدْ صَبَوَا وَتَرَكَا دِينَكَ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ قَالَ: فَمَشَى عُمَرُ ذَامِرًا حَتَّى أَتَاهُمَا، وَعِنْدَهُمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ يُقَالُ لَهُ خَبَّابٌ قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ خَبَّابٌ بِحِسِّ عُمَرَ تَوَارَى فِي الْبَيْتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِمَا، فَقَالَ: مَا هَذِهِ الْهَيْنَمَةُ الَّتِي سَمِعْتُهَا عِنْدَكُمْ؟ قَالَ: وَكَانُوا يَقْرَءُونَ: طه فَقَالَا: مَا عَدَا حَدِيثًا تَحَدَّثْنَاهُ بَيْنَنَا. قَالَ: فَلَعَلَّكُمَا قَدْ صَبَوْتُمَا، فَقَالَ لَهُ خَتَنُهُ: يَا عُمَرُ إِنْ كَانَ الْحَقُّ فِي غَيْرِ دِينِكَ؟ قَالَ: فَوَثَبَ عُمَرُ عَلَى خَتَنِهِ، فَوَطِئَهُ وَطْئًا شَدِيدًا. قَالَ: فَجَاءَتْ أُخْتُهُ لِتَدْفَعَهُ عَنْ زَوْجِهَا، فَنَفَحَهَا نَفْحَةً بِيَدِهِ، فَدَمِيَ وَجْهُهَا ... "
مذکورہ بالا روایت اور دوسری روایات کا خلاصہ :
" ایک روز عمر گردن میں تلوار لٹکائے ہوئے اپنے گھر سے نکلے ، راستہ میں بنو زُہرَہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا ، جس نے پوچھا کہ اے عمر کہاں کا ارادہ ہے ؟ عمر بولے محمد کو قتل کرنے جارہا ہوں اس لیئے کہ انہوں نے نئے دین کا اعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے اور سارے عرب میں فتنہ مچا رکھا ہے
تو اس شخص نے کہا کہ : اگر تم نے محمد کو قتل کیا تو کیا بنی ہاشم اور بنی زہرہ تم سے انتقام نہیں لیں گے ؟ عمر نے کہا لگتا ہے تم نے بھی اپنا دین تبدیل کردیا ہے اور نئے دین میں شامل ہو چکے ہو اس پر اس شخص نے کہا ایک بات کہوں تو تعجب و حیرانی ہوگی کہ خود تمہارے بہنوئی اور بہن نے تمہارے دین کو تبدیل کرکے اسلام قبول کرلیا ہے
عمر نہایت غیظ و غضب کے عالم میں ( اور دھمکی دیتے ہوئے ) اپنی بہن کے گھر کی جانب چل پڑے۔ ان کے پاس ( گھر میں ) مہاجرین میں سے ایک شخص " خَبَّاب " تھا ، جب " خباب " نے عمر کے قدموں کی آہٹ سنی تو گھر میں چھپ گئے
بنا کسی اجازت گھر میں دیوانہ وار داخل ہوتے ہی عمر نے کہا : " یہ کیا سرگوشیاں ہو رہی تھیں جس کو میں نے سنا "
در اصل اس وقت گھر میں یہ لوگ سورہ " طہ " پڑھ رہے تھے
عمر کو داخل ہوتے دیکھ کر دونوں ( بہن بہنوئی ) سہم کر رہ گئے
بہن اور بہنوئی نے کہا : ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے عمر نے کہا : شاید تم دونوں نے دین تبدیل کردیا ہے، اس پر بہنوئی نے کہا : اے عمر اگر حق و حقیقت تیرے دین کے علاوہ کسی اور دین میں ہو تو ؟
بس یہ سننا تھا کہ عمر غصے سے آپے میں باہر ہوگئے اور بہنوئی پر جھپٹ پڑے، دے مارا زمین پر اور پاؤں سے روندنے و کچلنے لگے ، بہن نے اپنے شوہر کو چھڑانا چاہا تو عمر نے اپنی بہن کو بھی بہت زد و کوب کیا، یہاں تک کہ وہ بہت زخمی ہو گئیں ، ہاتھوں سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا ، زخموں سے خون رس رس کر لباس میں جذب ہوکر ٹپکنے لگا اور طمانچے اس شدت سے رسید کیئے کہ چہرہ لہو لہان ہو گیا ... "
اس کے بعد ہے :
عمر اسلام لانے کے لیئے رسول خدا کے پاس آئے تو :
" كَانَ رَسُولُ الله فِى الدَّارِ ... وَ عَلَى بَابِ الدَّارِ حَمزَة، وَ طَلحَه، وُ نَاس مِن اَصحابِ رَسُولِ الله ... "
" رسول خدا اپنے گھر میں تھے ... اور گھر کے دروازے پر حمزہ ، طلحہ اور اصحاب رسول خدا میں سے لوگ تھے ... "
برادران سنی کی صرف 3 معتبر کتابوں کا حوالہ :
- دَلائِلُ النُّبُوَّة جلد 2 ص 219 تالیف ابوبکر بَیھَقِی
- اَلطَّبَقَاتُ الكُبرى جلد 3 ص 268 - 267 تاليف ابن سعد
- تاريخ اسلام جلد 1 ص 174 - 175 تاليف شمس الدين ذهبى
اسی حوالے سے ایک دوسری روایت پیش خدمت ہے :
... قیس نے کہا کہ میں نے سعید بن زید (عمر کے بہنوئی ) سے سنا کہ :
" ... يَقُولُ لِلقَومِ : لَو رَاَيتُنِى مُوثِقِى عُمَرُ عَلَى الاِسلَامِ اَنَا وَ اُختُهُ وَمَا اَسلَمَ ... "
" ... انہوں نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا ایک وقت تھا کہ عمر جب اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے تو مجھے اور اپنی بہن کو اس لیئے باندھ رکھا تھا کہ ہم اسلام کیوں لائے ..."
( صحیح بخاری جلد 5 ص 126 کتاب : انصار کے مناقب - باب 97 عمر بن خطاب کے اسلام لانے کا واقعہ - ناشر دار القلم بیروت )
توجہ فرمائیں عمر نے نہ صرف یہ کہ بہن اور بہنوئی کو بے تحاشہ مارا پیٹا بلکہ باندھ بھی رکھا تھا
مذکورہ واقعہ کے پیش نظر عمر کو خلیفہ ماننے والوں سے چند سوالات ہیں ان کا جواب معتبر دلیل کے ساتھ چاہیئے :
- آپ لوگوں نے اس واقعہ کا ذکر عمر کے مناقب و فضائل میں کیا ہے، کیا آپ کے نزدیک رسول خدا ( صلى الله عليه وآله ) کو قتل کرنے کا ارادہ کرنا عمر کی فضیلت ہے ؟
- اس واقعہ کو عمر کی شجاعت و بہادری کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ، کیا یہ شجاعت ہے یا بزدلی اور کمزوری ؟
- مسلمان بہن اور بہنوئی کو بے دردی سے مارنا اور باندھ کر رکھنا فضیلت ہے ؟ یا انسانیت کے ساتھ ظلم ؟
- کیا داعشی ... درندگی کے پیچھے عُمَرِی بربریت نہیں ہے ؟ اس لیئے کہ داعش ... نے کہا تھا کہ ہماری حکومت و خلافت کے لیئے آئیڈیل ابوبکر ، عمر اور عثمان ہیں
-
آپ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے مکان کا دروازہ نہیں ہوتا تھا اس لیئے دختر رسول خدا حضرت فاطمہ ( سلام الله عليهم ) کے در کو نذر آتش کرنا افسانہ و شیعوں کا جھوٹ ہے
مذکورہ واقعہ تو حضرت زہرا (عليها السلام ) کے در کو نذر آتش کرنے کے پہلے کا ہے اس میں تو در کا ذکر ہے
لکھا ہے رسول خدا ( صلى الله عليه وآله ) کے دروازے پر کچھ لوگ تھے کیا پدر کے گھر کا دروازہ تھا لیکن دختر رسول خدا ( صلوات الله عليهم ) کے مکان کا در نہیں تھا ؟ جب کے گھر کو نذر آتش کرنا بعد کا واقعہ ہے
تبصرہ :
بعض کٹھ ملا کہتے ہیں عمر نے بہن اور بہنوئی کو اس وقت مارا جب عمر کافر اور مشرک تھے
آئندہ عرض کرونگا کہ خلیفہ بننے کے بعد بھی اپنی درندگی سے باز نہ آئے
( جاری )
No comments:
Comment