roman urdu me padhne ke liae Click here
باسمه جلت اسمائه
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور
گزشتہ دنوں جب ایک گستاخ شخص نے قرآن کریم پر حملہ کیا اور قرآن حکیم کی ۲۶ آیتوں کے بارے میں سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرنے کا اعلان کیا تو مجھے حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ اس سے پہلے بھی ضمیر اور سالم فطرت کے دشمنوں کی طرف سے قرآن حکیم پر کافی اعتراضات کیئے گئے لیکن وہ گل سڑ گئے اور رسول اکرم ( صلى الله عليه وآله ) کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن باقی و زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا
قرآن مجید پر حالیہ اعتراض کرنے والے شخص کا بھی کچھ ایسا ہی انجام ہوتا نظر آتا ہے جیسا کہ ماضی میں اعتراض و توہین کرنے والوں کا ہوا
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے اور یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے پیچھے کون سے عناصر کار فرما ہیں ؟ اور اس کے پیچھے کیا مقصد ہے ؟
اس سوال کا جواب ہمیں دہلی میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں مل گیا جس میں زعفرانی (گیروے) رنگ کے لباس میں ملبوس ایک کالے کافر نے کہا :
"مجھے جہاد اور اسلام کے خلاف لڑنا ہے اور رسول خدا ( صلى الله عليه وآله ) کی شان میں گستاخی بھی کی ..."
ایک شخص قرآن صامت یعنی قرآن کریم کے خلاف بول رہا ہے اور دوسرا قرآن ناطق یعنی رسول خدا ( صلى الله عليه و آله ) ، اسلام اور مقدس و انسانی فریضہ جہاد کے خلاف ...
"فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے"
حقیقت میں ہمارا اصل مقابلہ وسیم سے نہیں ہے لہذا ہماری اصل جِدَّ و جُہد وسیم کو لانے والوں کے خلاف ہونی چاہیئے
بعض لوگ اور ادارے وسیم کے مقابل انقلابی بن جاتے ہیں اور جب زعفرانی رنگ کے لباس میں ملبوس حکومتی افراد کے سامنے آتے ہیں تو پھر انہیں صرف کرسی یا ذاتی مفاد سے پیار ہوتا ہے نہ کہ اسلام و عوام سے
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ جن کے لباس پر زعفرانی رنگ چڑھا ہے ان کے پیچھے کون ہے ؟
اس سوال کا جواب بھی ہمیں دہلی میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں ہی مل گیا
بیرونی عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے اس پریس کانفرنس میں کالے کافر نے نفرت آمیز اور تشدد کو بھڑکانے والے بیانات دیئے
اور کہا کہ ہمارے لئے سب سے پہلے رول ماڈل اسرائیل کے یہودی ہیں پھر میانمار ...
قابل توجہ یہ بات بھی کہی کہ آزادی کے پہلے ہندوستان اور ہندوؤں کو انگریزوں نے بچایا ..کالے کافر کا یہ بیان مسلمانوں ...کے خلاف تو تھا ہی ساتھ ہی ساتھ قابض انگریزوں کی حمایت میں بھی ہے
یہ ملک کے غدار ہیں یا وفادار ؟
یاد ماضی کریدیں تو انہیں یاد آئے گا کہ انگریز ، ہندوؤں کو گائے کا گوشت زبردستی کھلاتے تھے اور ان کی لڑکیوں و عورتوں کو اٹھا کر لے جاتے تھے ..لیکن اب وہ ان کے محافظ و نجات دہندہ بن گئے بے غیرتی کی حد ہوگئی !!!
اس بیان اور پریس کانفرنس پہ ریاست کا تماشائی بن کر خاموش رہنا ریاستی اداروں اور حکومت وقت کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے
کرکٹ ٹیم کے کھلا ڑیوں کی جرسیوں پر زعفرانی رنگ چڑھانے حتی پورے ملک کو گیروے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنے والوں نے جب سے اقتدار سنبھالا تو ملک مشکل میں ہے
جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ، ملک میں جنگل کا قانون اور بھیڑیوں کا راج ہے
بد عنوانی ، معیشت کی تباہی ، مہنگائی ، بےروزگاری شباب پر ہے ، لوگ بھوکے مر رہے ہیں ، اس وقت معیشت سیاست کی قیدی بن چکی ہے ، دونوں ہاتھوں سے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں
کسان خود کشی کر رہے ہیں ، کسانوں کے جائز دھرنے اور احتجاج کو بدنام کرنے کے لئے گودی میڈیا حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس حد تک جاچکا ہے کہ ان پر دہشت گرد اور پاکستان وغیرہ کے ایجنٹ ہونے کا لیبل چسپاں کر رہا ہے ...
مختصر یہ کہ سکون کا سانس محال ہے
اصل مسائل سے توجہ ہٹانے اور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آئے دن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ اٹھانا ، شگوفہ چھوڑنا ، فرقہ واریت و نفرت کی آگ بھڑکانا اور دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی ...ان کے نزدیک بہترین راستے ہیں
"چراغ سب کے بجھیں گے ، ہوا کسی کی نہیں"
فرانس کے ایک مشہور فلاسفر ، مورخ ، سماجیات کے عالم ڈاکٹر اور کئی کتابوں کے مؤلف و مصنف " گوستاوے لے بون " ہیں قرآن اور ہندوستان کے بارے میں بھی ایک کتاب لکھی ہے ان کی ایک کتاب کا ترجمہ عربی میں بنام " اليهود فى التَّارِيخِ الحَضَارَاتِ الاُولى " ہے اس کتاب میں یہودیوں کی خصلتوں کے بارے میں لکھا ہے :
اگر ہم چاہیں کہ یہودیوں کے صفات و خصوصیات کا خلاصہ چند جملوں میں بیان کریں تو اس طرح کہیں :
"یہود ان انسانوں کے مانند ہیں جو ابھی ابھی و تازہ جنگل سے شہر میں داخل ہوئے ہیں اور ہمیشہ انسانی صفات سے بے بہرہ تھے روئے زمین پر پست ترین لوگوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں اسی وجہ سے جو یہودی خود کو بنی اسرائیل اور موسی کلیم اللہ کے پیرو سمجھتے ہیں ہمیشہ وحشی ، سفاک اور بے غیرت تھے حتی جب خود ان لوگوں نے اپنے ملکوں پر حکومت کی اس وقت بھی اپنی سفاکیت سے دستبردار نہیں یوئے ... مختصر یہ کہ یہود اور حیوانات کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا"
(ص ۸۳ -۸۲ مترجم "عادل زُعَیتَر" )
مذکورہ بالا باتیں زعفرانی رنگ کے لباس میں ملبوس لوگوں پر بالکل صادق آتی ہے
جو وحشیانہ طریقے سے لوگوں کا قتل عام کرے ، سیاست کے نام پر خون کی ایسی ہولی کھیلے جسے دیکھ کر انسانیت شرماجائے ، حاملہ عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہیں
مندر میں پانی پینے پر پیاسے بچے کو بڑی بےدردی سے مارے پیٹے اور زدوکوب کرے ... توایسے خونی و بےرحم لوگوں کو آپ درندہ اور وحشی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ؟
اسرائیلی یہودیوں سے ان کی کافی مشابہت و مماثلت ہے ان کا سرچشمہ بھی صہیونی ہیں اس لئے کہ یہ ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں
جیسا کہ اوپر عرض کیا اس بات کا اعتراف ایک کالے کافر نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کیا ہے کہ ہمارے رول ماڈل اسرائیل کے یہودی ہیں
ایسے لوگ قرآن حکیم اور نبی رحمت ( صلى الله عليه وآله ) کی مخالفت کریں یا ان سے دشمنی کریں تو تعجب کی کوئی بات نہیں
اس لئے کہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قرآن نے عدالت ، برابری ، برادری ، انسانیت ، جیو اور جینے دو کا درس وسبق دیا ہے
اور ظلم و جور ، بے عدالتی ، فساد ، ثروت اندوزی ، غنڈہ گردی ...کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے حکم دیا ہے
مقدس دین اسلام میں "کتاب الحرب" ( جنگ کی کتاب ) نہیں ہے لیکن " کتاب الجہاد " ( جہاد کی کتاب ) ہے
حقیقی اسلام (اسلام اور انسانیت کے دشمنوں کے آلہ کار داعش اور القاعدہ وغیرہ کا نہیں ) جنگ کا مخالف ہے لیکن سماج و معاشرے سے ظلم و جور ، بے عدالتی ، قتل و غارت اور فتنوں ...کو ختم کرنے کے لئے آخری راہ حل ( شرائط کے مطابق ) جہاد و جنگ ہے
قرآن کریم کی ایسی آیتوں اور تعلیمات کو اپنے ناپاک مقاصد کے حصول میں رکاوٹ اور خطرہ سمجھتے ہیں اس لئے ان آیتوں کو ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں
خدا وند عالم کا ارشاد گرامی ہے :
۔... اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحَافِظُون
۔" ... بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا اور یقینا ہم اس کے نگہبان ( تحریف اور زوال سے ) ہیں
( حجر ۹ )
کیا خدا مثلا وسیم اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں سے براہ راست خود حفاظت فرمائے گا ؟
ایسا نہیں ہے اپنے بندوں کے ذریعے حفاظت کرتا ہے اور کرتا رہے گا
ہم لوگ بھی خدا پر توکل کرتے ہوئے قرآن شریف کی اور اپنی حفاظت خود کریں
یہ زمینی حقیقت ہے کہ وسیم ظاہر میں ہے باطن میں کوئی اور ہے مافیا کے جرائم پیشہ گروہ کے سرغنہ ہیں یہ ملک کو لوٹنے کا بھی منصوبہ بناتے رہتے ہیں
اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے :
" ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ہیں کھانے کے اور ہیں "
لہذا در اصل ، اصل پر لگام لگانے کی ضرورت ہے
آخر میں وسیم سے بس اتنا کہنا چاہونگا کہ آپ نے اللہ ، رسول اور ائمہ اطہار ( صلوات الله عليهم ) کو ناراض کیا ہے اور آپ کے کارناموں کی وجہ سے آپ کی ماں کو تکلیف پہنچی ہے ابھی بھی وقت ہے اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور تلافی بھی کریں
عدالت سے اپنی عرضی واپس لیں اور قوم سے معافی مانگیں اس طرح آپ قوم اور اپنی ماں کے آغوش میں آجائیں
ہم کو یقین ہے خدا آپ کو معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ کی وسیع رحمت اور مغفرت کا دروازہ کھلا ہے مخصوصا ماہ شعبان میں
۔" ...میری آیتوں کو تھوڑی و ناچیز قیمت پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ سے ڈرو
( بقرہ 41 )
سید شمشاد علی کٹوکھری
خادم ادارہ دارالعترت
1 / شعبان / 1442ھ.ق
No comments:
Comment