Roman urdu me padhne ke liae Click here
باسمه تعالى
السلام على الحسين و على على ابن الحسين
و على اولاد الحسين و على اصحاب الحسين
گزشتہ زمانے میں باربردار گدھے کو تیز چلانے کے لئے ایک لمبی لکڑی پر گاجر باندھ دیتے تھے اور خود اسی پر اس کی آنکھوں کے سامنے لٹکا دیتے تھے گاجر کھانے کے لئے گدھے کی رفتار بڑھ جاتی تھی جیسے جیسے یہ گدھا آگے بڑھتا تھا اس کے سامنے کی گاجر بھی آگے بڑھتی رہتی تھی
جب گاجر کو حاصل کرنے میں گدھا تھک کر رک جاتا تھا تو لاٹھی و تازیانے سے اس کو مارتے تھے تاکہ نہ رکے
اس کو کہتے ہیں دھمکی، فریب اور لالچ کی سیاست و پالیسی
حقیقت میں اس وقت بھی دنیا کی ظالم و جابر اور خائن حکومتیں اسی پالیسی و سیاست پر عمل پیرا ہیں
بر صغیر کی حکومتوں نے بھی لاٹھی اور گاجر کا طریقہ اختیار کیا ہے
لاٹھی اور گاجر کے اس دور پر آشوب میں کیا ہم مرعوب ہوکر اپنے اصولی موقِف و پالیسیوں کو بدل دیں ؟ اپنے حقوق سے چشم پوشی کر لیں ؟ اپنے مسلم الثبوت عقائد سے پیچھے ہٹ جائیں ؟ رسول خدا اور اہل بیت رسول (صلوات الله عليهم) کے دشمنوں جیسے ابوسفیان، معاویہ ... کی مذمت کرنے والوں کو مجرم قرار دیں یا ان کے حامیوں کو ؟ ظالم و خائن حکومتوں اور دہشت گرد گروہ کے شرائط کو تسلیم کرلیں ؟ یا پھر علمی و فکری اور ہر اعتبار سے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں ؟
دھمکی سے مرعوب ہوکر یا لالچ میں آکر اگر کوئی شخص اپنے ایمان و اصولوں کا سودا کرے اور ظالم و خائن حکومتوں و دہشت گرد اور مذہبی زہر اگلنے والے گروہ کے جھانسے میں آکر اس کے دام فریب میں پھنس جائے تو اس کی مثال مذکورہ بالا داستان کی ہے
جب اپنی کوئی بات نہیں منوا سکتے ہیں تو ان کی بھی ہر بات نہ مانیں
ابو سفیان، معاویہ اور ان کے مانند لوگوں کو ماننے کا نتیجہ یہ ہے کہ ابھی تک قبلئہ اول آزاد نہ ہوسکا اور ہر جگہ مسلمانوں کی تحقیر کی جارہی ہے، اگر ان کو سنی مسلمانوں سے محبت و ہمدردی ہوتی تو فلسطین وغیرہ میں ہمارے سنی بھائیوں پر ہر روز وحشیانہ حملہ نہ ہوتا ان کے مقدسات کی توہین نہ ہوتی ۔۔۔
ضمیر فروش اور غدار و خائن مسلمان حکومتیں و گروہ اپنا سارا زور شیعوں کو کچلنے میں لگاتے ہیں اور اسلام کے اصلی دشمن کے تلوے چاٹتے ہیں
درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ایسے لوگ اپنے کرتوت و عمل سے پہچانے جاتے ہیں کہ کس کے ماننے والے ہیں
امیرالمومنین علی (عليه السلام) کا ارشاد گرامی ہے :
كُن فِى الفِتنَةِ كَاِبنِ اللَّبُونِ لَا ظَهر فَيُركَبَ وَ لَا ضَرع فَيُحلَبَ
مفہوم : فتنے کے دور میں اونٹ کے اس بچے کی طرح ہوجاؤ جس کی پیٹھ اس قابل نہیں ہے کہ اس پر سواری کی جاسکے اور نہ ہی پستان و دودھ ہے کہ دوہا جاسکے
(نہج البلاغہ حکمت ۱)
اس میں پیغام یہ ہے کہ جب دو باطل گروہ جیسے "عبد المَلِک و ابن زُبَیر" یا "حَجَّاج و ابن اشعث" یا "مروان و ضَحَّاک" یا "بنو امیہ و بنو عباس" یا "آر ایس ایس و تبلیغی جماعت ..." کے درمیان جنگ و فتنہ برپا ہو تو خاموش و ساکت رہو، اونٹ کے بچے کی طرح ہوجاؤ تاکہ کوئی تم سے سوءاستفادہ نہ کر سکے
لیکن اگر حق و باطل کے درمیان جنگ و فتنہ ہو جیسا کہ جنگ صفین یا جنگ جمل یا جنگ نہروان میں ہوا یا عصر حاضر میں وقت کے خوارج ... اور دہشت گرد تنظیموں کا فتنہ، تو یہاں خاموشی و سکوت اور اونٹ کے بچے کی طرح ہوجانا جائز نہیں ہے
اس لئے کہ فتنہ و جنگ حق و باطل کے درمیان ہے دو باطل گروہ کے درمیان نہیں
جب جنگ و فتنہ حق و باطل کے درمیان ہو تو غیر جانب دار و بے طرفی کی روش اختیار کرنے کا کوئی مطلب و جواز نہیں
کم از کم مناظرہ کا باب کھلنا چاہیئے تاکہ معلوم ہو جائے حق پر کون ہے اور باطل پر کون ؟ غدیری راستہ صحیح ہے یا سقیفی ؟ جنگ جمل میں حق پر کون تھا ؟ یا قاتل و مقتول دونوں اچھے ہیں یا ان میں سے کوئی ایک ؟
امیر المومنین علی (عليه السلام) کا قاتل یعنی آپ کا امیر معاویہ اچھا ہے یا آپ کے چوتھے خلیفہ ؟
آپ ہی کی کتابوں سے بعض صحابہ کی حقیقت بیان کرنے والے آپ کی نظر میں کافر ہیں لیکن اصحاب رسول (صلى الله عليه و آله) کے قاتلین "رضى الله عنه۔۔۔" !!!۔
آیات اور معتبر احادیث کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ عقلی بات ہے کہ سفیدی و سیاہی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے
اختتام پر واضح انداز میں یہ عرض کر دوں کہ جن لوگوں نے بھی اہل بیت رسول خدا (صلوات الله عليهم) کو اذیت و تکلیف پہنچائی ہے ... ان کی توہین نہیں کریں گے لیکن کبھی بھی کسی بھی حالت میں وہ ہمارے نزدیک محترم نہیں ہو سکتے
والسلام
سید شمشاد علی کٹوکھری
خادم "ادارہ دار العترت"
17 / محرم الحرام / 1442 ھ.ق
مفید معلومات کے لیئے ملاحظہ کریں :
No comments:
Comment