roman Urdu me padhne ke liae Click here
باسمه تعالى
لقب بیمار کربلا شان امامت کے خلاف
امام سجاد (عليه السلام) کے بارے میں دو بہت بڑی تحریف و غلط فہمی ہے
ایک یہ ہے کہ آپ کربلا میں اس طرح بےہوشی کی حالت میں تھے کے معاذالله آپ کو نہ جنگ کی کوئی خبر تھی اور نہ ہی اصحاب ، انصار اور افراد خاندان بنی ہاشم کے شہید ہونے کی
اس طرح پڑھا جاتا ہے کہ جب امام حسین رخصت آخر کے لئے سید سجاد (سلام الله عليهم) کے پاس آئے تو بیٹے نے باپ سے ہر ایک کے بارے میں پوچھا ... تو پدر بزرگوار نےفرمایا سب شہید ہو گئے ، بیٹا مختصر سمجھ لو مردوں میں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے ...
جب کہ ایسا نہیں تھا ، امام (عليه السلام) کی بے ہوشی کو اپنی بے ہوشی پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے
امام (عليه السلام) کی غشی و بے ہوشی کا مطلب ہرگز بےحواسی و بے خبری نہیں ہے
اس تعلق سے معصومین (سلام الله علیهم) کی نیند و بیداری اور ہوش و بے ہوشی یکساں ہوتی ہے ، بظاہر جسم سوتا ہے و بے ہوش ہوتا ہے لیکن ہر چیز کی اطلاع رہتی ہے کسی چیز سے بےخبر نہیں رہتے ہیں ، روز عاشورہ امام حسین و امام سجاد (سلام اللہ علیہم) کے ہوش و حواس میں کوئی فرق نہیں تھا
دوسری غلط فہمی و تحریف آپ کے لقب بیمار کربلا کے بارے میں ہے
اگلے وقتوں سے یہ رسم و رواج ہے کہ امام چہارم (عليه السلام) کو سجاد ، زین العابدین اور سید الساجدین ... کے بجائے ہمیشہ بیمار کربلا سے یاد کیا جاتا هے
کوئی بیمار ہوا تو کہتے ہیں بحق بیمار کربلا یا بحق عابد بیمار یا بیمار کربلا کے صدقے ... میں شفا ہو
آپ کی بیماری اس طرح لوگوں کے ذہن میں نقش ہو گئی ہے
معتبر روایات و نقل کے مطابق آپ صرف شب عاشورہ و روز عاشورہ بیمار تھے
آپ کی بیماری اتفاق نہیں تھا بلکہ مشیت و مصلحت الہی کی وجہ سے بیمار تھے ، آپ کی بیماری خدائے علیم و حکیم کی طرف سے تھی تاکہ آپ سے جہاد ساقط ہو جائے اور شہید نہ ہوں ، سلسلئہ امامت باقی رہے نور ہدایت خاموش نہ ہو اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد فرائض امامت انجام دیتے رہیں
لہذا مختصر مدت کی بیماری آپ کی حفاظت و بچاؤ کے لئے تھی آپ کی بیماری کا راز اس وقت ظاہر ہوا جب سب نے جام شہادت نوش کرلیا تو ظالموں نے خیموں پر حملہ کیا ، شمر ملعون امام سجاد (عليه السلام) کو شہید کرنا چاہتا تھا لیکن حمید بن مسلم نے یہ کہکر روکا کہ یہ بیمار ہیں ان کو قتل نہ کرو
امام سجاد (عليه السلام) صرف شب عاشورہ و روز عاشورہ بیمار تھے لیکن ہم لوگ آپ کو دائم المریض (ہمیشہ بیمار رہنے والے) کے طور پر پہچانتے ہیں
اس لقب سے ذہن آپ کی بیماری ، رنجوری و بدحالی ، ناتوانی ، افسردگی ، بے حالی و ضعف و کمزوری ... اور کسی خطرناک بیماری کی طرف جاتا ہے جب کہ آپ بظاہر زرہ سے ہاتھ کے زخمی ہونے کی وجہ سے مریض تھے
زندگی کے دوسرے اہم پہلو ذہن سے اتر جاتے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ آپ دشمن کے مقابلے لاچار ، ناتواں اور کمزور نہ تھے بلکہ دوران اسارت بھی شجاعت و شہامت کے ساتھ دشمن کو دندان شکن جواب دیا
ہر انسان مریض ہوتا ہے دوسرے معصومین (سلام الله عليهم) بھی بیمار ہوئے ان کو کوئی بیمار کیوں نہیں کہتا ؟ اور کبھی کبھی ہماری بیماری طولانی بھی ہوجاتی ہے اس کے باوجود اگر کوئی ہم کو ہر وقت بیمار کہے یا کسی خطیب کو لکھے یا کہے اے بیمار خطیب کسی ذاکرکو کہے اے بیمار ذاکر کسی شاعر کو کہے اے بیمار شاعر کسی عالم کو کہے اے بیمار عالم ، نجف اشرف مخصوصا کربلائے معلی میں بعض لوگ مریض ہوتے ہیں جب وہ اپنے وطن آئیں تو کوئی کہے اے بیمار نجف اے بیمار کربلا کوئی اس کو اپنے لئے پسند کرے گا ؟ آپ سے پوچھتا ہوں اگر کوئی کہے تو کیسا لگے گا ؟ ذرا کہکر دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟
اگر معلوم کرنا ہے تو محافل و مجالس ... میں کسی ذاکر یا شاعر یا زائر یا عالم کو بلاتے وقت کہکر دیکھیں اب بیمار کربلا یا بیمار نجف ... فلاں ذاکر یا شاعر یا زائر یا عالم کو دعوت دی جارہی ہے
علمائے اہل سنت نے تو امام سجاد (عليه السلام) کے لئے لکھا ہے :
كَانَ مِن اَحسَنِ النَّاس وَجهََا وَ اَطیَبِهِم رَیحََا ... وَ اَشرَفِهِم ذَاتاََ وَ طَبعَاََ وَ اَصلاََ ...
لوگوں میں چہرے کے اعتبار سے سب سے زیاده حسین و جمیل اور خوشبو کے اعتبار سے سب سے زیاده خوشبودار تھے ... اور ذات ، طبیعت و خاندانی اعتبار سے شریف الاصل اور نہایت بلند و بزرگ تهے ...
لیکن افسوس کا مقام ہے ہم کہیں بیمار کربلا
مختصر بیماری کی وجہ سے ہم نے آپ کو تمام عمر بیمار بنا دیا وہ بھی اس طرح کے " بیمار کربلا " نام پڑ گیا اسی سے آپ مشہور بھی ہو گئے
احتیاط کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جائے ، سب نہیں تو معصومین (سلام اللہ علیہم) کے اکثر القاب خدا نے دیئے ہیں یا رسول خدا نے یا کسی اور معصوم (سلام اللہ علیہم) نے ، کوئی بتائے لقب بیمار کربلا آپ کو خدا نے دیا ہے یا کسی معصوم نے ؟
کسی بھی معتبر کتاب یا روایت میں اس لقب کا ذکر نہیں ہے دوسرے یہ کہ بیمار فارسی و اردو کا لفظ ہے عربی نہیں ہے
آپ کی کسی زیارت میں نہیں ہے " السلام علیك يا مريض كربلا " سلام ہو آپ پر اے بیمار کربلا
حاصل کلام یہ کہ یہ لقب خودساختہ و پرداختہ ہے با الفاظ دیگر یہ لقب خود کا بنایا ہوا اور آراستہ کیا گیا ہے ، یہ شان امامت کے خلاف ہے لہذا بہتر ہے اس ناپسندیدہ لقب سے امام سجاد (عليه السلام) کو خطاب کرنے سے پرہیز کیا جائے
Karbala me Imaame Sajjaad (a.s) ne jehaad kiya aur zakhmi bhi huae
No comments:
Comment